نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیانائیڈو نے میڈیا سے قومی مفاد میں آزاد، غیر جانبدار اور متوازن خبر دینے اور سماجی مسائل کے تعلق سے عوام میں بیداری لانے کی غرض سے مہم چلانے کی اپیل کی ہے۔
مسٹر نائیڈو نے یہاں قومی پریس ڈے پر منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک آزادی کے دوران صحافت مشن اور اس دوران اس نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا،’مشن اب کمیشن ہوگیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ صحافت قومی مفادات، ملک کے اتحاد و سالمیت اور اقلیتوں کے تحفظ کو دھیان میں رکھ کر آزاد اور ذمہ دارانہ ڈھنگ سے کی جانی چاہیے۔ خبروں کو خبروں کی شکل میں پیش کیا جانا چاہیے؛اس کی تشریح نہیں کی جانی چاہیے۔ جمہوریت میں پریس کو اظہارِ خیال کی آزادی ہے لیکن خبر دینے کے بعد ہی اس کی تشریح کی جانی چاہیے۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ صحافت ذمہ داری سے کی جانی چاہیے اور خبروں کے سلسلے میں جو اطلاع ہو اس کی توثیق کر لی جانی چاہیے۔ اس سے اطلاعات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا،’ آج ایسی صورتحال ہوگئی ہے کہ کسی واقعہ کے سلسلے میں ایک اخبار کو پڑھنے سے اس کی حقیقی تصویر نہیں ابھرتی ہے۔ مختلف اخبار ایک ہی خبر کو مختلف طریقے سے پیش کرتے ہیں۔
مسٹر نائیڈو نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں ذاتی مفاد کے لیے اخبارات شائع کررہے ہیں۔ کارپوریٹ گھرانوں نے اپنی تجارت کی حفاظت کے لیے ٹی وی چینلوں کا قیام کیا جن پر ہر وقت بریکنگ نیوز آتی رہتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ ایک چینل دوسرے چینل کے خلا ف نیوز چلاتے ہیں۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ خبر کو(معروضیت) خبربنائے رکھیں اسے رنگین نہ بنائیں۔ عوام کو حقیقی معلومات پانے کا حق ہے۔
انہوں نے دہشت گردی کو انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مذہب میں دہشت گردی کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ دہشت گرد تنظیموں کو کون فروغ دے رہا ہے؟
اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر پرکاش جاؤڈیکر نے ’فیک نیوز‘ کو ’پَیڈنیوز‘ سے بڑامسئلہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ اس پر بحث کی جانی چاہیے اور اس سلسلے میں حکومت کو مشورہ دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’فیک نیوز‘ سے ٹی آر پی تیزی سے بڑھتی ہے۔ آزاد ی اور ذمہ داری سے صحافت پر پریس کو غوروخوض کرنا چاہیے۔
مسٹر جاؤڈیکر نے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد پریس کو آزادی ملی، لیکن ایمرجنسی 1975 میں اس پر آنچ آئی۔ اس دوران راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) اور اپوزیشن پارٹیوں نے پریس کی آزادی کے سلسلے میں تحریک چلائی تھی۔ اس دوران وہ 16 ماہ جیل میں قید تھے۔ اس وقت پریس نے ہمت و متانت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس دوران کچھ اخبارات حکومت کے دباؤ میں دب بھی گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پریس کو اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔ آزادی مفت میں نہیں ملی ہے۔ انڈین پریس کونسل منتخب اداراہ ہے۔ حکومت اس کے کام میں دخل نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ اخبارات کی تشریح میں غلطی سرزد ہونے کا امکان رہتا ہے اس لیے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر عمدہ صحافت کے لیے گلاب کوٹھاری، راج چینگَپَّا، سنجے کمار سینی، شیوسوروپ اوستھی، انو ابراہم، پی جی اُنِّی کرشنن، اکھل ای ایس ، فوٹو گرافر شیپرا داس ، سوربھ دُگَّل، روبی سرکار، انورادھا مسکارینہاس، سندیپ سنگھ اور کرشنن کوشک کو اعزازسے نوازا گیا۔