لکھنؤ تک پہنچی دہلی بم دھماکے کی جانچ، سابق لیکچرر ڈاکٹر شاہین سعید گرفتار، کار سے ملی تھی اے کے-47
9
M.U.H
12/11/2025
نئی دہلی/لکھنؤ: دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب 10 نومبر کو ہوئے خوفناک کار بم دھماکے کی جانچ اب لکھنؤ تک پہنچ گئی ہے۔ اس دھماکے میں اب تک 12 افراد کی موت کی تصدیق ہوئی ہے، جبکہ کئی زخمی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ تفتیش کے دوران پولیس نے کانپور کی جی ایس وی ایم میڈیکل کالج کی سابق لیکچرر ڈاکٹر شاہین سعید کو گرفتار کیا ہے، جن کی کار سے ایک اے کے-47 رائفل برآمد ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق، یہ دھماکہ شام 6:52 بجے اس وقت ہوا جب ٹریفک سگنل پر گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آس پاس کھڑی گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور پورا علاقہ ملبے میں تبدیل ہو گیا۔ دہلی پولیس، این آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے مشترکہ طور پر تفتیش شروع کی، جس کے تحت اب تک 12 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر شاہین سعید کا پس منظر
ڈاکٹر شاہین سعید، کانپور کے جی ایس وی ایم میڈیکل کالج کے فارماکولوجی ڈپارٹمنٹ میں سات سال تک لیکچرر رہ چکی ہیں۔ سال 2013 میں وہ بغیر اطلاع کے نوکری سے غائب ہو گئیں، جس کے بعد انہیں متعدد نوٹس بھیجے گئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بالآخر 2021 میں حکومت نے انہیں برطرف کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، نوکری ختم ہونے کے بعد شاہین فرید آبا منتقل ہو گئیں، جہاں ان کی ملاقات ڈاکٹر مزمل شکیل سے ہوئی۔ مجمل فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور اسی نے شاہین کو یونیورسٹی سے جوڑا۔
مزمل اور اس کا نیٹ ورک
کچھ ہفتے قبل، جموں و کشمیر پولیس اور ہریانہ پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں فرید آباد سے ایک دہشت گرد نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا تھا۔ اس دوران اننت ناگ کے ڈاکٹر عادل احمد اور پلوامہ کے ڈاکٹر مزمل شکیل کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے قبضے سے 360 کلو سے زیادہ امونیم نائٹریٹ، ٹائمرز، بندوقیں اور دیگر دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔ یہ دونوں کسی بڑے حملے کی تیاری میں تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مجمل کے قبضے سے ملی کار ڈاکٹر شاہین سعید کے نام پر رجسٹرڈ ہے، جس میں سے ایک اے کے-47 رائفل برآمد ہوئی۔ تفتیش کے دوران مجمل نے شاہین کا نام لیا، جس کے بعد دہلی پولیس اور یو پی اے ٹی ایس نے شاہین کو حراست میں لے لیا۔
گھر سے برآمدگی اور اے ٹی ایس کی کارروائی
پولیس کے مطابق شاہین کے بھائی پرویز سے بھی رابطہ کیا گیا، جو لکھنؤ کے آئی ایم آئی روڈ پر رہائش پذیر ہے۔ منگل کی صبح 8 بجے یو پی اے ٹی ایس اور جموں و کشمیر پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو گھر بند ملا۔ تالا توڑ کر اندر داخل ہونے کے بعد ایک لیپ ٹاپ اور کئی موبائل فون برآمد کیے گئے۔ بھارت ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے شاہین کے بھائی شعیب نے کہا، “ہماری بہن پڑھنے لکھنے میں بہت اچھی تھی، ہمیں کبھی یقین نہیں تھا کہ وہ اس طرح کے کسی معاملے میں شامل ہو سکتی ہے“۔
جانچ کا دائرہ وسیع
قومی سلامتی ایجنسیاں اس معاملے میں مختلف ریاستوں میں چھاپے مار رہی ہیں۔ دہلی پولیس نے بتایا کہ تحقیقات میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے روابط کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ ابتدائی شواہد کے مطابق، شاہین اور مزمل ایک منظم دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ تھے، جو تعلیمی اداروں کے پردے میں سرگرم تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس میں برآمد ہونے والا دھماکہ خیز مواد اور ہتھیار لال قلعہ میٹرو دھماکے سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ پولیس کا ماننا ہے کہ فرید آباد اور لکھنؤ سے ملی جانکاریاں دہلی دھماکے کے پیچھے چھپے اصل ماسٹر مائنڈ تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ سیکیورٹی ایجنسیاں اس واقعے کو دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابی قرار دے رہی ہیں۔ دہلی پولیس کے مطابق، تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں اور مزید گرفتاریوں کے امکانات موجود ہیں۔