آصف محمود ،لاہور پاکستان
ہم بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر ہونیوالی تقریب سے فارغ ہونے کے بعد چائے کی ٹیبل پر آپس میں گفتگو کررہے تھے، موضوع تھا مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں نوجوان مشال خان کی بے دردی سے ہلاکت اور اُس کے بعد ہونے والی پیش رفت۔پادری شاہد معراج کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی المناک اور افسوسناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اور گرفتار کئے جانیوالے ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی چائیے۔ سردار بشن سنگھ بھی اِس معاملے کو سوچ کر خاصے رنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی شدت پسند طبقے کو ایسے واقعات کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا تو کسی کے نزدیک آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر مقدس ہستیوں کی توہین اِس کی بنیادی وجہ ہے۔ ہماری اِس لاحاصل بحث میں کئی اور لوگ بھی شامل ہوتے گئے جن میں صاحبزادہ ضیاالحق نقشبندی، پاسٹر ریاض، سردار کلیان سنگھ اورعلامہ لطیف مدنی شامل تھے۔پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ایک ممالک میں ہوتا ہے جہاں مذہب اور مذہبی شخصیات پر تنقید شجرِ ممنوع ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ شاید پاکستان ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں مذہب کے معاملے پر سب سے زیادہ شدت پسندی دیکھنے میں آتی ہے اور یہاں سزائیں بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی سخت ہیں۔ تاہم یہ درست نہیں ہے کیونکہ دنیا میں کم وبیش سولہ (16) فیصد ممالک ایسے ہیں جہاں توہینِ مذہب پر سزاؤں کا قانون موجود ہے، البتہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران وہ ممالک ہیں جہاں توہین مذہب کے قوانین کے تحت ملزمان کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
پاکستان
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام پر حال ہی میں مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں ایک نوجوان مشال خان کو مشتعل ہجوم نے بے دردی اور بے رحمی سے قتل کردیا تھا۔ اِس سے قبل پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو بھی اُن کے سیکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے توہین رسالت کے الزام میں فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ اِس اقدام پر ممتاز قادری کو سزائے موت دے گئی تھی جبکہ مشال قتل کیس میں اب تک 47 ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں۔توہین مذہب کے نام پر قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، 1990ء سے لے کر اب تک تقریباً 69 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ دوسری طرف 40 افراد ایسے ہیں جو اِس وقت جیلوں میں قید اور سزائے موت کا انتظار کررہے ہیں اِن میں کئی ایسے ہیں جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔پاکستان میں موجود توہینِ مذہب کے قوانین برطانوی دور میں بنائے گئے، تاہم مختلف اوقات میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ 1860ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر میں بڑھتے ہوئے مذہبی جرائم کے سبب دفعہ 295، 296 اور 298 کے نام سے تین قوانین انڈین ضابطہ اخلاق میں شامل کئے تھے۔ اِن قوانین کے تحت کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی، مذہبی تقریبات میں فساد اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا، تاہم اِن قوانین کے تحت توہینِ مذہب کی سزا موت نہیں رکھی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ضیاء الحق دور میں ملک کے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے مزید پانچ شقیں توہینِ مذہب کے قانون میں شامل کی گئیں۔ 1990ء میں 295C کے تحت توہینِ رسالت کی سزا موت قرار دے دی گئی۔
پاکستان کے علاوہ اگر چند دیگر اسلامی ممالک میں توہین مذہب پرسزاؤں کی بات کریں تو ایران اور سعودی عرب میں توہین مذہب کے ملزموں کو سزائے موت دی جاسکتی ہے۔
سعودی عرب
سعودی عرب میں پینل کوڈ فقہ حنبلی کے تحت بنائے گئے ہیں۔ جرم کی سنگینی کے اعتبار سے جرمانے، کوڑوں، قید یا موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بادشاہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ملزم اگر اپنے کیے پر پشیمان ہو اور معافی مانگ لے تو اُسے معاف کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب میں نافذ شرعی قوانین کے تحت توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والا فرد مرتد قرار دیا جاتا ہے، جس کی سزا موت مقرر ہے۔ 2014ء میں سعودی حکومت نے لادینیت کو بھی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اُس کے لئے سزائیں مقرر کی گئیں ہیں۔
ایران
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد توہینِ مذہب کے قوانین میں تبدیلی کی گئی۔ 2012ء میں نیا ضابطہِ تعزیرات تیار کیا گیا، جس میں توہینِ مذہب کے نام سے علیحدہ باب بنایا گیا۔ اِس نئے باب میں مرتد اور توہین مذہب کرنے والے شخص دونوں کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ نئے ضابطے کی شق 260 میں قانون کے تحت کوئی بھی شخص اگر رسولِ خداﷺ یا کسی اور پیغمبر کی گستاخی کا مرتکب ہو اُسے سب النبی تصور کیا جائے گا جس کی سزا موت ہوگی۔ اِسی شق کے مطابق شیعہ فرقے کے 12 اماموں اور پیغمرِ اسلام کی بیٹی کی شان میں توہین کرنے کی بھی سزا موت ہے۔ اِس نئے ضابطے میں ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اِس میں سے جملہ ’اسلام کی مقدس اقدار کی توہین‘ کو حذف کردیا گیا ہے، البتہ پرانے ضابطۂ تعزیرات کی شق 513 کو ابھی بھی قانونی حیثیت حاصل ہے جس میں یہ جملہ بدستور شامل ہے۔
اِن دونوں قوانین میں توہینِ مذہب کی سزا موت ہے۔ اِن دو مخصوص قوانین کے علاوہ ایرانی آئین میں توہین مذہب کا جرم صرف ’سب النبی‘ ہی نہیں بلکہ فساد فی الارض کے بھی زمرے میں آتا ہے لیکن اِس کے تحت کوئی مخصوص سزا متعین نہیں ہے۔ البتہ جرم کرنے والے کو سزائے موت اور جیل قید دونوں ہوسکتی ہے۔
مصر کے آئین میں عرب اسپرنگ کے بعد 2014ء میں ترامیم کی گئیں، جن کے بعد اسلام کو ملک کے مرکزی مذہب کا درجہ دیا گیا جبکہ صرف دیگر الہامی مذاہب کو جائز تصور کیا گیا۔ مصر کی تعزیرات کے مطابق آئین کے قانون 9 ایف کے تحت توہین مذہب پر مکمل پابندی عائد ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
انڈونیشیا
دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی ریاست کے سرکاری نظریے کے مطابق صرف ’ایک خدا پر یقین‘ کیا جاسکتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے سرکاری مذاہب، اسلام، عیسائیت، ہندومت، بدھ مت اور کنفیوشنزم سے انحراف کرنا، یا اِن مذاہب کی شان میں گستاخی کرنا، دونوں توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال قید ہے۔ توہینِ مذہب کے قانون کے مطابق کسی شخص پر مقدمہ درج کرنے سے پہلے تنبیہہ کرنا ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص دوبارہ اِس جرم کا ارتکاب کرے تو اُس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ ملک میں قانونی طور پر آزادی رائے کی اجازت ہے لیکن مذاہب پر تنقید کی سختی سے ممانعت ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ لادینیت اور اِس کے پرچار پر بھی مکمل پابندی ہے۔
ملائیشیا
ملائیشیائی قانون کے تحت شق 295، 298 اور 298 توہین مذہب کے جرائم کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں جن کے مطابق بالترتیب کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنا، دانستہ طور پر کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے درمیان پھوٹ پڑوانا یا اشتعال دلانا جرم قرار پائے گا، جس کے تحت زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور جرمانے کی سزا ملے گی۔ اِس کے علاوہ ملائیشیا کی ایک عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں غیر مسلم افراد پر اِن کی مذہبی کتب میں لفظ ’اللہ‘ استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ ستمبر 2015ء میں بھی ایک وفاقی عدالت کے حکم کے تحت کوئی بھی مسلمان اگر ایسی کتب شائع کرتے ہوئے پکڑا گیا جس میں مذہبی قوانین کے خلاف مواد ہو تو اُس پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے۔
کویت
عرب ریاست کویت میں بھی توہین مذہب پر جرمانے اور قید کی سزا کا قانون موجود ہے۔
ترکی
ترکی میں دفعہ 103 کے تحت 6 ماہ سے 2 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
بنگلہ دیش / افغاستان
بنگلہ دیش میں پانچ برس تک قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے، جبکہ مسلم ہمسایہ ملک افغانستان میں عدالت جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے سکتی ہے، جس میں سزائے موت بھی شامل ہے تاہم اگر کوئی مجرم سزا سنائے جانے کے تین روز کے اندر اپنی غلطی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو اِس کی سزا معاف یا پھر کم ہوسکتی ہے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اکثر غیر مسلم ممالک میں توہین کے قوانین موجود ہیں، خصوصاً آسمانی صحائف اور آسمانی ادیان سے تعلق رکھنے والی اقوام میں انبیاء و رسل کی توہین قابل سزا جرم ہے۔ ہندو مت میں ناسٹک (مذہب بیزار) کے لئے خشک لکڑی کی طرح جلا کر اِس کی جڑ ختم کردینے کا حکم ہے۔
چین
چین میں بھی مہاتما بدھ کے مجسمے کی توہین، فوجداری جرم ہے۔ 29 مارچ 1990ء کو چین کے صوبے سی چوان میں وانگ ہونگ نامی شخص کو جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہاتما بدھ کے مجسمے کا سر کاٹا تھا، سزائے موت سنائی گئی تھی۔
یہودیوں کے ہاں خدا، رسولﷺ، یومِ سبت اور ہیکل کی توہین جرم تھی اور ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر سردار کاہن نے اِسی طرح کا الزام لگا کر پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ مسیحی مبلغ متقنس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری پولس پر یلغار بھی انہی الزامات کے بہانے کی گئی تھی۔
رومی شہنشاہت میں جب شہنشاہ جئینین قسطنین عیسائی ہوا تو قانون میں انبیاء بنی اسرائیل کی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہینِ جرم قرار دے دیا گیا۔ روس میں بھی یہ قانون جاری رہا اور انقلاب کے بعد مقدس انبیاءؑ کی جگہ اسٹالن کی توہین کو جرم قراردے دیا گیا۔
برطانیہ
برطانیہ کے کامن لاء کے تحت توہین مسیح، بائبل کی اہانت وغیرہ کو بلاس فیمی لاء کے زمرے میں قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
آسٹریا / جرمنی / ہالینڈ / اسپین / آئرلینڈ
آسٹریا کے آئین کے آرٹیکل 188، 189 کریمنل کوڈ، فن لینڈ میں سیکشن 10 اور چیپٹر 17 پینل کوڈ، جرمنی میں آرٹیکل 166 کریمنل کوڈ، ہالینڈ میں آرٹیکل 147 کریمنل کوڈ، اسپین کا آرٹیکل 525 کریمنل کوڈ، آئرلینڈ کے دستور کے آرٹیکل 40، 6، اور 1 کے مطابق کفریہ مواد کی اشاعت ایک جرم ہے۔ منافرت ایکٹ 1989ء کے امتناع میں ایک گروہ یا جماعت کے لئے مذہب کے خلاف نفرت بھڑکانا بھی شامل ہے۔
کینیڈا / نیوزی لینڈ / ڈنمارک
اسی طرح کینیڈا (سیکشن 296 کینیڈین کریمنل کوڈ) کے تحت عیسائی مذہب کی تنقیص و تضحیک ایک جرم ہے۔ نیوزی لینڈ کرائم ایکٹ 1961ء کے تحت گرجوں کے تقدس کو قانون کا درجہ حاصل ہے۔ بعض یورپی ممالک کے قوانین میں اِن کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ڈنمارک کے دستور کے سیکشن 4، اسٹیٹ چرچ کی مثال موجود ہے جس میں کہا گیا ہے اوینجیلیکل لوتھرن پروٹسٹنٹ چرچ ریاست ڈنمارک کا قائم کردہ چرچ ہوگا اور اُس کی مدد و اعانت ریاست کے ذمہ ہوگی۔
متی کی انجیل، بائبل اور کتاب استثناء کے مطابق انبیاءؑ اور اُن کے ساتھیوں کی توہین کرنے والے کی سزا موت ہے۔ چنانچہ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کو جان سے مارا جاتا رہا ہے۔ مثلاً 1553ء میں برطانیہ (الزبتھ دور) میں پانچ افراد کو، 1553ء میں ہنگری میں ڈیوڈ نامی پادری کو، 1600ء میں روم کے بروٹو نامی شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ برطانیہ میں 1821ء سے 1834ء تک 73 افراد کو مار دیا گیا۔ یہ سزا امریکہ میں بھی دی جاتی رہی ہے، تاہم 1968ء کے بعد امریکہ میں کوئی مقدمہ دائر نہیں ہوا، کیونکہ وہاں مذہبی اور عدالتی امور الگ الگ کردئیے گئے تھے۔ پھر بھی چند سال قبل ڈیوڈ نامی شخص کو اُس کے 300 ساتھیوں سمیت اِس لئے جلا دیا گیا کہ اُس نے دعویٰ کیا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح اُس میں حلول کرگئی ہے۔
مختلف مذاہب سے رکھنے والے تمام افراد کا ماننا تھا پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے مذہب کی تضحیک اور دل آزاری کا سوچ بھی نہیں سکتا، ماضی میں جو واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اُن میں اکثر یا تو کم علمی کا نتیجہ تھے یا پھر اِن کی تشہیر غلط طریقے سے کی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اظہارِ رائے کی بے مہار کُھلی آزادی، نسلی، گروہی، لسانی و علاقائی عصبیتوں کے فروغ اور باہمی فساد و جدال کا باعث بن سکتی ہے۔ اِس کے ذریعے کسی کے عقائد اور مذہب کی تضحیک کے ذریعے قتل و غارت گری کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔ اِسی لئے تقریباً ہر جمہوری ملک میں اِسے قانونی طور پر روکا گیا ہے، اور قابلِ تعزیر جرم گردانا گیا ہے۔
پاکستانیوں کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ توہینِ مذہب کے واقعات میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے قانون اورعدالت کا راستہ اختیار کریں جبکہ دوسری طرف ہمارے انصاف مہیا کرنیوالے اداروں کو بھی ایسے معاملات میں فوری کارروائی کرتے ہوئے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔