قیام:
حجۃ الاسلام مولانا سید کلب عابد طاب ثراہ نے۱۹۶۰ ءمیں دیگر علماء کے ساتھ مل کر مجلس علماء ہند کی بنیاد رکھی تھی ۔اس تنظیم میں اپنے وقت کے تمام بزرگ اور مستند علماء کرام نے رکنیت اختیار کی تھی ۔مگر مولانا سید کلب عابد مرحوم کے اچانک انتقال کے بعد جہاں تمام قومی و دینی فعالیتیں متاثر ہوئیں وہیں مجلس علماء ھند کا تنظیمی ڈھانچہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔طویل مدت کے بعد ۲۰۰۷ میں مولانا سید کلب جواد نقوی نے اس تنظیم کا احیاء کیا اور ہندوستان کے تمام علماء،ذاکرین و خطباء کا اجلاس جو بزرگ علماء کے مطابق ہندو پاک میں علماء و خطباء کا منفرد عظیم اجتماع تھا،طلب کر کے مجلس علماء ہند کو فعال کرنے کا عزم لیا۔
مجلس علماء ہند قومی نمائندگی کے لئے قائم کی گئی تنظیم ہے جسے تمام اہم اور باوقار علماء کی سرپرستی اور تعاون حاصل ہے۔۲۰۰۷ میں منعقد ہوئے اس تاریخی قومی اجلاس میں ہندوستان بھرکے تمام علماء کرام اورذاکرین و خطباء حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ہندوپاک کی تاریخ کا یہ منفرد اجلاس تھا جس میں بیک وقت ہزارہا علماء و خطباء شامل ہوئے ۔
اس اجلاس کے بعد مولانا سید کلب جواد نقوی کی سرپرستی میں حسینیہ غفرانمآب چوک لکھنؤ میں مجلس علماء ہند کا مرکزی دفتر کھولا گیا ۔۲۰۱۳ ء کے بعد مجلس علماء ہند کی علمی ،سماجی ،ثقافتی اور قومی فعالیتوں کا باضابطہ آغاز ہوا ۔قومی حقوق کی بازیابی ،نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت کی کوشش،اسلامی تعلیمات اور مکتب تشیع خصوصا مرجعیت کو نقصان پہونچارہے افکارونظریات کی بیخ کنی ،عالمی حالات پر نظر اور مسائل کا تجزیہ ،قومی و بین الاقوامی درپیش مسائل پر غوروخوض کرنا اور ظلم و تشدد و دہشت گردی کے خلاف عوام میں بیداری و احتجاجات کا انعقاد کرنا نیز وقف املاک کا تحفظ اور بازیابی کے لئے تحریکات جیسی دیگر اہم ذمہ داریاں مجلس علماء ہند کے بینر پر انجام پاتی رہی ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ اس سے بہتر ڈھنگ سے انجام پائینگی۔
مجلس علماء ہند کے قیام سے تاہنوز محدود وسائل اور بجٹ کے نہ ہونے کے باوجود بھی اہم امور انجام دیے گئے اور قومی و ملی مسائل پر توجہ دی گئی ۔اس عرصہ میں بجٹ کی کمی مجلس علماء ہند کے اہداف کو متاثر کرتی رہی ہے امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ کمی دور ہواور مزید بہتر امورانجام دیے جائیں۔ان شاء اللہ ۔
اہم اجلاس:
۱۔۲۰۰۷ ء میں مجلس علماء ہند کا احیاء عمل میں آیا ۔اس اجلاس میں پہلی بار مولانا سید کلب جواد نقوی کی دعوت پر ہندوستان کے تمام علماء و ذاکرین ایک اسٹیج پر بڑی تعداد میںجمع ہوئے ۔یہ ایک تاریخ ساز اجلاس تھا جسکی اہمیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
۲۔۲۰۰۸ میں ’’ شیعہ مہا سمیلن کا انعقاد کیا گیا تاکہ سیاسی جماعتوں کو شیعوں کی سیاسی طاقت دکھائ جاسکے اوراپنے حقوق کا مطالبہ کیا جاسکے ۔
۳۔۲۰۰۸ میں اپریل کے مہینہ میں ریاست بہار میں شیعوں کے مسائل پر غوروخوض اور راہ حل تلاش کرنے کے لئے پٹنہ میں کانفرنس منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں بہار کے تمام علماء نے شرکت کی۔
۴۔۲۰۱۲ میں مجلس علماء ہند کا انتخاب عمل میں آیا ۔اس انتخاب میں ہر ریاست کے نمائندگان کو جمہوری طریقہ سے منتخب کیا گیا اور ذمہ داریان تفویض کی گئیں۔
۵۔ ۱۰ اپریل ۲۰۱۷ء کو مجلس علماء ہند کے ممبران و رجسٹرڈ اراکین کا جلسہ منعقد ہوا تاکہ مجلس علماء ہند کو مزید فعال بنانے پر غوروفکر کیا جاسکے ۔
۶۔وقف بچائو تحریک کی کامیابی کے مختلف موقعوں پر مقامی و بیرونی علماء کرام و انجمن ہائی ماتمی کے ساتھ اجلاس کئے جاتے رہے ہیں تاکہ مفید مشوروں کی روشنی میں تحریک کو آگے بڑھایا جاتارہے۔
اہم احتجاجات :
مجلس علماء ہند قومی و بین الاقوامی مسائل پر مولانا سید کلب جواد نقوی کی سرپرستی میںاحتجاجی مظاہرے کرتی رہی ہے۔عالمی یوم القدس کے علاوہ دنیا بھر میں ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف مجلس علماء ہند سراپا احتجاج رہی ہے ۔چند اہم احتجاجات کویہاں بطورنمونہ پیش کیا جارہاہے ۔
۱۔۶ ستمبر ۲۰۱۴ کو عالمی سطح پر جاری دہشت گردی اور مسلمانوں کی مسلسل کی جارہی حق تلفی کے خلاف عظیم الشان ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان کے معروف غیر مسلم مذہبی رہنمائوں نے شرکت کی مگر عین وقت پر ریاستی حکومت نے اس ریلی پر پابندی عائد کردی تاکہ شیعوں کا اجتماع ممکن نہ ہو ۔اس لئے باہر سے آنے والے افراد کو عین وقت پر روکا گیا مگر اسکے باوجود بڑی پروقار پریس کانفرنس حسینیہ غفرانمآب مین منعقد ہوئی جس میں ہر مذہب کے رہنما موجود رہے ۔
۲۔عالمی سطح پر شیعوں کی نسل کشی کےخلاف ۳۱ مارچ ۲۰۱۳ کو کینڈل مارچ نکالا گیا ۔جسمیں ہندو اور عیسائی رہنمائوں نے شرکت کی ۔اسکے بعد ۳ جولائی ۲۰۱۳ اور ۲۱ نومبر ۲۰۱۵ کو بھی شیعوں کی نسل کشی کے خلاف کینڈل مارچ اور احتجاجی مارچ نکالا گیا ۔
۳۔۲۰ نومبر ۲۰۱۵ کو آصفی امام باڑہ کے داخلی دروازہ پر داعش اور دیگر دہشت گرد تنطیموں کی بربریت کےخلاف احتجاج کیا گیا ۔اس وقت میڈیا یہ پروپیگنڈہ کررہی تھی کہ مسلمان دہشت گردی کے خلاف اپنا موقف واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا میڈیا کے اس غلط پروپیگنڈہ کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا اور بیداری پیدا کی گئی ۔
۴۔۱۶دسمبر ۲۰۱۵ کو نائیجریامیں شیعوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا گیا اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو میمورنڈم ارسال کیا گیا ۔آیت اللہ زکزاکی اور دیگر علماء کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔اسکے بعد ۲۰ دسمبر ۲۰۱۵ کو بھی اسی موضوع پر احتجاج کیا گیا ۔آیت اللہ زکزاکی کی رہائی کے لئے وقتا فوقتا احتجاجات کئے جاتے رہے اور مختلف اداروں کو میمورندم ارسال کئے گئے ۔
۵۔سعودی عرب میں آیت اللہ شیخ باقرالنمر کی موت کی گرفتاری اور موت کی سزا کے فورا بعد مجلس علماء نے احتجاجات کا سلسلہ شروع کیا ۔کئی پریس کانفرنسیں منعقدکیں اور سعودی جرائم کا پردہ فاش کیا ۔۱۹ اپریل ۲۰۱۳ سے لیکر آیت اللہ شیخ باقرالنمر رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت تک احتجاجات جاری رہے ۔۱۷ اپریل ۲۰۱۴،۱۵ مئی ۲۰۱۵،۳ جنوری ۲۰۱۶ ،۴ جنوری ۲۰۱۶ کو عظیم الشان احتجاجات منعقد ہوئے اور مارچ نکالے گئے ۔
انکی شہادت کے بعد ۷ فروری ۲۰۱۶ کو بڑے امام باڑہ میں مجلس چہلم منعقد کی گئی جس میں تاریخی اجتماع دیکھا گیا ۔
۶۔ہندوستان میں آرایس ایس کے کارکن کملیش تیواری نے رسول اسلام کی اہانت کی جسکے خلاف۱۱ دسمبر ۲۰۱۵ کو نماز جمعہ کے بعد آصفی مسجد سے رومی گیٹ تک احتجاجی جلوس نکالا گیا ۔اس احتجاج کے بعد اسے گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا اور جیل کی سزا سنائی گئی ۔
۷۔ہر سال جنت البقیع کے انہدام کے خلاف اور تعمیر نو کے لئے عید الفطر کے پہلے جمعہ کو احتجاجی مظاہرہ کیا جاتاہے ۔
۸۔ہر سال عالمی یوم القدس کے موقع پر ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو اسرائیلی جارحیت و دہشت گردی کے خلاف عظیم الشان احتجاج منعقد ہوتا ہے۔
۹۔داعش کے ذریعہ صحابی حضرت علی علیہ السلام جناب حجربن عدی کی نبش قبر کے بعد ۷ مئی ۲۰۱۳ کو تکفیریت کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔صحابہ کی نبش قبر کے خلاف اہلسنت والجماعت کے بزرگ علماء کے ساتھ ایک پریس کانفرنفس ۱۱ مئی ۲۰۱۳ کو منعقد کی گئی جس میں وہابی افکار اور انکے جرائم کو بے نقاب کیا گیا۔
۱۰۔۱۸ جولائ ۲۰۱۴ کو غزہ اور فلسطین پر اسرائیلی کی بم باری،فوجی محاصرہ اور دہشت گردی کے خلاف احتجاجی کیندل مارچ نکالا گیا جو بیگم حضرت محل پارک سے نکل کر جی پی اور پارک حضرت گنج تک گیا ۔
نوجوانوں کے لئے کلاسیز
مجلس علماءہند نے نوجوانوں کے لئے ہفتہ وار دینی کلاسیز کا انعقاد ماہ ستمبر ۲۰۱۳ سے شروع کیا جسکے اب تک چار اہم دورے منعقد ہوچکے ہیں۔ یہ کلاسیز مولانا سید کلب جواد نقوی کے تعاون اور ایماء پر شروع کئے گئے تاکہ ان کلاسیز کے ذریعہ نوجوانوں کو معارف اہلبیت ؑ کی تعلیم دی جاسکے۔مرجعیت کی اہمیت و افادیت کو سمجھا یا جائے اور سامراج کے پروپیگنڈہ کے خلاف بیداری پیدا کی جاسکے۔ ان کلاسیز میں نوجوانوں کو درپیش مسائل اور اہم مبتلابہ موضوعات پر ماہرین کے لیکچرز منعقد کرائے گئے ۔کلاسیز کے علاوہ مختلف موقعوں پر نوجوانوں کے لئے سمپوزیم اور اہم لیکچرز بھی رکھے جاتے ہیں۔
اہم موضوعات
۱۔عصر حاضر میں میڈیا کا منفی و مثبت کردار
۲۔اسلام، سافٹ وار اور نوجوان نسل
۳۔اسلام کے خلاف مغرب کی تباہ کن جنگ
۴۔اسلام اور جدید نظریات (کیپٹل ازم،سیکولرازم ،لبرل ازم)
۵۔نوجوانوں کے مسائل اوور انکا حل
۶۔نوجوان نسل پر تہذیبی یلغار
۷۔امام زمانہ عج اللہ تعالی شریف اور مغربی پروپیگنڈہ
۸۔نوجوانوں کی ذمہ داریاں
ان اہم موضوعات کے علاوہ مستقل موضوعات میں ’’معارف اہلبیت ؑ ‘‘ کا موضوع شامل تھا جس کے تحت ’’توحید ،نبوت اور امامت ‘‘ جیسے بنیادی عقائد کی صحیح تعلیم دی گئی ۔اسکے علاوہ فقہ کے اہم مسائل اور تاریخی موضوعات پر بھی لیکچرز دیے گئے۔
کانفرنسیں:
مجلس علماء ہند نے ہمیشہ مولانا سید کلب جواد نقوی اور خاندان اجتہاد کی روش پر عمل کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی اہمت و افادیت کو پیش نظر رکھا اور کسی بھی طرح کے ملّی انتشار و اختلاف کو پنپنے کا موقع نہیں دیا ۔اتحاد اسلامی کے لئے ہمیشہ مثبت اقدامات کئے اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔اس موضوع پر کئی اہم کانفرنسیں منعقد کیں اور اتحاد کے پیغام کو عام کیا ۔ساتھ ہی دیگر اہم موضوعات و مسائل پربھی کانفرنسیں منعقد کی گئیں ۔
۱۔۱۰ اکتوبر ۲۰۱۵ کو حسینیہ سبطین آباد حضرت گنج میں ’’اتحاد بین المسلمین کی ضرورت و اہمیت ‘‘ کے موضوع پر عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا ۔اس کانفرنس میں ہندوستان کے معروف صوفی سنی علماء نے شرکت کی ۔یہ پہلی ایسی کانفرنس تھی جس میں شیعہ اور صوفی حضرات ایک اسٹیج پر بڑی تعداد میں جمع ہوئے ۔
۲۔ماہ اپریل ۲۰۰۸ میں ’’اسلامی بیداری‘‘ کانفرنس چھوٹے امام باڑہ میں منعقد ہوئی جس مین قومی و بین الاقوامی مختلف مذاہب کی اہم شخصیات نے حصہ لیا۔
۳۔۷ جولائی ۲۰۱۳ کو ائمہ جمعہ اترپردیش کو ایک اسٹیج پر جمع کیا گیا اور قومی مسائل پر تبادلۂ خیال کیا گیا ۔ائمہ جمعہ کا یہ پہلا اجلاس تھا جو لکھنؤ میں طلب کیا گیا تھا ۔دوسرا اجلاس ۱۴ مارچ ۲۰۱۵ کو حسینیہ غفرانمآب لکھنؤ میں طلب کیا گیا جس میں اترپردیش کے ائمہ جمعہ کی اکثریت نے شرکت کی اور قومی مسائل پر غوروخوض کیا گیا۔
۴۔ آیت اللہ محسن اراکی مد ظلہ کی آمد پر ۱۳ فروری ۲۰۱۷ کو ’’ اتحاد اسلامی ‘‘ کے موضوع پر لکھنؤ میں عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شیعہ سنی علماء کرام نے شرکت کی ۔پہلی بار ندوۃ العلماء کے مدیر اور دیگر اراکین و متعلقین نے کسی شیعہ تنظیم کے بینر تلے جمع ہوکر وحدت اسلامی کا نعر ہ بلند کیااور سامراجی سازشوں کے خلاف عملی اقدامات کی اپیل کی۔
علمی سمپوزیم :
مجلس علماء ہند نے مختلف موقعوں پر نوجوانوں کے لئے اہم موضوعات اور مناسبتوں پر سمپوزیم منعقد کئے ۔ان علمی پروگراموں کو مولانا سید کلب جواد نقوی کی ایما ء پر شروع کیا گیا ہے تاکہ نوجوانوں میں بیداری پیدا ہو اور سامراج کے پروپیگنڈہ کو شکست دی جاسکے۔
۱۔۱۰ اپریل ۲۰۱۵ کو ’’سیرت جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھاکی عصر حاضر معنویت‘‘ کے موضوع پر نوجوانوں کے سمپوزیم کا انعقاد عمل میں آیا جس میں معروف شخصیات نے مذکورہ موضوع کو واضح کیا۔
۲۔۹ ستمبر ۲۰۱۵ کو شہادت امام علی رضا علیہ السلام کے موقع پر ’’غریب طوس یثرب سے طوس تک ‘‘ کے موضوع پر سمپوزیم منعقد ہوا ۔
پریس کانفرنسیں:
مجلس علماء ہندہمیشہ قومی ،ملیّ اور بین الاقوامی مسائل پر پریس کانفرنسیں منعقد کرتی رہتی ہے ۔پریس کانفرنسوں کی تعداد کو بیان کرنا بعیداز امکان ہے ۔ہر ضروری موقع پر مجلس علماء ہند نے شیعوں کے مسائل اور انکے حقوق کی بازیابی کے لئے ،مسلمانوں کی مشکلات ، عالمی دہشت گردی ،دیگر مذاہب کے مسائل ،اتحاد بین المسلمین اور وقف املاک کے تحفظ کے لئے مولانا سید کلب جواد نقوی کی سرپرستی میں پریس کانفرنسیں منعقد کی ہیں۔ان تمام پریس کانفرنسوں کا ریکارڈ موجود ہے جو پرنٹ و الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ محفوظ کیا گیا ہے ۔
نیوز پورٹل سایٹ:
اس وقت مجلس علماء ہند کی نیوز پورٹل سائٹ دنیا بھرمیں کافی مقبول ہے ۔ویب سایٹ پر مسلمانوں کی اہم خبریں ،شیعوں کے بنیادی مسائل ،مکتب تشیع کے نظریات و عقائد ،اہم موضوعات پر مضامین اور اسلام و تشیع خصوصا مرجعیت کے خلاف عالمی پروپیگنڈہ کی رد میںمضامین و خبریں موجود ہیں۔یہ ویب سایٹ مئ ۲۰۱۷ سے شروع کی گئی ہے جو الحمداللہ تا حال کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے ۔اس پورٹل نیوز سایٹ سے اب تک ہزاروں افراد منسلک ہوچکے ہیں۔
وقف بچائو تحریک :
مجلس علماء ہند نے وقف املاک کی تباہی و بربادی کے خلاف اور اسکے تحفظ کے لئے مولانا سید کلب جواد نقوی کی سرپرستی میں عوام میں بیداری پیدا کی ۔علماء نے عوام کے ساتھ مل کر مرکزی و رریاستی سرکار کی بدعنوانیوں اور وقف املاک کی تباہی کے خلاف گرفتاریاں دیں۔وقف بچائو تحریک کے تحت کئ اہم پرشکوہ اجتماعات ہوئے اور بڑے امام باڑے سے ہزاروں افراد نے تاریخی گرفتاریاں دیں۔وقف بچائو تحریک نے متعدد بار حضرت گنج میں سڑک جام کرکے احتجاج کیا اور نوجوانوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔وقف تحریک نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ابھی تحریک جاری ہے ۔لکھنؤ ہی نہیں بلکہ اترپردیش ،دہلی اور دیگر ریاستوں میں بھی وقف املاک کے تحفظ اور بازیابی کے لئے کوششیں جاری ہیں ۔
وقف بچائو تحریک کے لئے مولانا کلب جواد نقوی کی سرپرستی اور علماء کرام کی قیادت میں انجمن ہائی ماتمی اور عوام الناس نے بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ہر بار وقف بچائو تحریک کو حکومتوں اور وقف مافیائوں کی بربریت کا سامنا کرنا پڑا۔مظاہرین کو زدوکوب کیا گیا،جان لیوا حملے کئے گئے ،لاٹھی چارج کی گئی غرضکہ وقف تحریک کو ختم کرنے کا ہر ہتھکنڈا اپنایا گیا مگر مظاہرین نے امام زمانہ عج کی جائداد کی حفاظت و بازیابی کے لئے ہر قربانی پیش کی اور ’’جیل بھرو آندولن‘‘ میں ہزاروں عورتوں،بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں نے مولانا کلب جواد نقوی کے ساتھ گرفتاریں دیں اور حکومتوں کی ہر سازش کو ناکام بنایا ۔
آج بھی وقف تحریک جاری ہے اور حکومتوں کی وقف دشمنی و بدعنوانیوں کے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے ۔یہ تمام تحریکات مولانا سید کلب جوادنقوی کی قیادت میں علماء کرام اور عوام کی مدد سے جاری ہیں۔
وقف بچائو تحریک کے تحت حکومتی قبضہ اور مافیائوں کے تسلط سے کئی اہم تاریخی امام باڑہ ،مساجد اور بڑ زمینیں حاصل کی گئی ہیں جو آج آباد ہیں ۔غریبوں کے لئے ان زمینوںپر گھر بنوائے گئے اور دیگر تعمیری امور زیر غور ہیں۔
امدادی کیمپ :
مجلس علماء ھند نے مختلف موقعوں پر قدرتی آفات کے شکار علاقوں اور فساد زدگان کی بلاتفریق مذہب و ملت مدد کی ہے ۔کشمیر میں سیلاب زدگان اور مظفرنگر میں فساد زدگان کی بھرپور اعانت کی گئی ۔یہ تمام فلاحی امور مولانا سید کلب جواد نقوی کی سرپرستی میں انجام پائے۔
۱۔ کشمیر میں آئے سیلاب کے بعد ہوئے جانی و مالی نقصان کے بعد مجلس علماء ہند نے لکھنؤ میں الگ الگ جگہوں پر کیمپ لگاکر متاثرین کے لئے امداد ی سامان جمع کیا ۔یہ کیمپ ۱۰ اکتوبر سے ۱۵ نومبر ۲۰۱۴ تک جاری رہا۔ ۔اسکے بعد کشمیر میں سیلاب زدگان کی بلاتفریق مدد کی گئی ۔سامان میںضروری دوائیاں،کمبل و کپڑے،خوراک اور دیگر ضروری سامان شامل تھا۔
۲۔۲۰۱۳ میںمظفرنگر میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد مجلس علماء ہند نے فساد زدگان میں بلا تفریق کمبل اور دیگر اشیاء تقسیم کیں۔یہ امداد مولانا کلب جواد نقوی اور انکے ذرائع کے ذریعہ کی گئی ۔