عدالت نے سنجولی مسجد تنازعہ پر فریقین کے دلائل سنے، اگلی سماعت 5 اکتوبر کو ہوگی
55
M.U.H
07/09/2024
شملہ: ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کے سب سے بڑے مضافاتی علاقے سنجولی میں واقع کثیر المنزلہ مسجد کے حوالے سے میونسپل کارپوریشن کورٹ میں سنیچر کو سماعت ہوئی۔ اس معاملے پر سیاسی ہلچل اور ہندو برادری کے سڑکوں پر آنے کی وجہ سے سب کی نظریں عدالت سے آنے والے حکم پر مرکوز تھیں۔ تاہم اس معاملے پر عدالت کی جانب سے آج کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ اس کیس کی سماعت میونسپل کارپوریشن شملہ کی عدالت میں ہوئی، وقف بورڈ کے علاوہ میونسپل کارپوریشن کے جے ای، کارپوریشن کی اسٹیٹ برانچ کے نمائندے اور مقامی شہریوں کے وکیل موجود تھے۔ میونسپل کارپوریشن کمشنر بھوپیندر اتری نے تمام فریقین کو سننے کے بعد اگلی سماعت کی تاریخ 5 اکتوبر مقرر کی ہے۔ عدالت نے وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی سے اس بارے میں بھی جواب طلب کیا ہے کہ ڈھائی منزلہ مسجد کیسے بن گئی، اس کیس کی سماعت کے دوران وقف بورڈ نے دعویٰ کیا کہ جہاں مسجد بنائی گئی ہے، اس کی ملکیت ہے۔ وقف بورڈ کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کی تعمیر مسجد کمیٹی نے کی ہے اور اس تعمیر میں وقف بورڈ کا کوئی رول نہیں ہے۔ وقف بورڈ کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ مسجد میں بغیر اجازت کے فرش کیسے بنائے گئے۔ اس پر جب تعمیرات سے متعلق میونسپل کارپوریشن کے جے ای کی رپورٹ آئے گی تو وہ اپنا کیس عدالت میں دائر کریں گے۔ عدالت نے میونسپل کارپوریشن کے جے ای کو ہدایت دی کہ وہ تعمیرات سے متعلق رپورٹ وقف بورڈ کو دیں، تاکہ وہ اگلی سماعت میں عدالت کے سامنے اپنا رخ پیش کرسکیں۔ عدالت میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ تعمیر کا کوئی نقشہ پاس نہیں کیا گیا۔ سنجولی مقامی باشندوں (ہندو تنظیم) کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ جگت پال نے دعویٰ کیا کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق جس زمین پر مسجد کھڑی ہے اس کی ملکیت ریاستی حکومت کے پاس ہے۔ یعنی جس زمین پر مسجد کھڑی ہے اس کی اصل مالک ریاستی حکومت ہے۔ مسجد کمیٹی کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سابق سربراہ محمد لطیف نے بتایا کہ جب وہ 2012 تک کمیٹی کے سربراہ تھے، مسجد میں صرف ڈھائی منزلیں تعمیر کی گئی تھیں۔ اس کے بعد وہ اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دے سکے کہ یہ تعمیر کیسے ہوئی۔ عدالت نے محمد لطیف سے پوچھا کہ مسجد کی بالائی منزل کی تعمیر کے لیے فنڈز کہاں سے آئے؟ اس پر بھی وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ میونسپل کارپوریشن کمشنر بھوپیندر اتری نے کہا ہے کہ یہ معاملہ پہلے ہی زیر غور ہے۔ اس معاملے میں تمام فریقین کو سننے کے بعد سماعت کی اگلی تاریخ 5 اکتوبر مقرر کی گئی ہے۔ سماعت کے بعد وقف بورڈ کے وکیل ڈی ایس ٹھاکر نے میڈیا کے سوالات پر کہا کہ وقف بورڈ اگلی سماعت میں مسجد کی جائیداد کی حالت کے بارے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنجولی مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ لیکن تنازع مسجد کی بالائی منزلوں کی غیر قانونی تعمیر کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن کے جے ای مسجد میں تعمیر کی گئی چار منزلوں کے بارے میں اپنی رپورٹ دیں گے اور اس کی بنیاد پر وقف بورڈ میونسپل کارپوریشن کورٹ میں اپنی اسٹیٹس رپورٹ داخل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق 1947 سے اب تک وقف بورڈ اس جائیداد کا مالک ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس زمین پر مسجد بنی ہے وہ ہماچل حکومت کی نہیں، وقف بورڈ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 کے بعد مسجد میں جو بالائی منزلیں بنی ہیں وہ مسجد کمیٹی اور میونسپل کارپوریشن کے درمیان کا معاملہ ہے اور وقف بورڈ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس معاملے میں سنجولی مقامی رہائشی (ہندو تنظیم) کے ایڈوکیٹ جگت پال نے کہا کہ جس زمین پر مسجد بنائی گئی ہے وہ سرکاری ملکیت ہے۔ اس میں وقف بورڈ کی تجاوزات ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ اس مسجد کی اراضی کی ملکیت کے دستاویزات عدالت کے سامنے نہیں دکھا سکا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق مسجد کی زمین کی ملکیت ریاستی حکومت کے پاس ہے، ایک اور درخواست مقامی باشندے نے دی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ مسجد کی وجہ سے کیا مسائل پیش آرہے ہیں۔ عدالت نے اس پر وقف بورڈ سے بھی جواب طلب کیا ہے۔ ڈھائی منزلہ مسجد 5 منزلہ کیسے ہو گئی، اس بارے میں وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی سے بھی جواب طلب کیا گیا ہے۔ وہیں وقف بورڈ کے اسٹیٹ آفیسر قطب الدین نے کہا کہ یہ اراضی وقف بورڈ کی ہے اور ریکارڈ میں ایک منزلہ مسجد کا بھی ذکر ہے، لیکن انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ اسے کس نے تعمیر کیا۔ بیرونی ریاستوں سے کچھ مسلمان لوگ شملہ آئے اور مقامی مسجد کمیٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے انہوں نے غیر قانونی طور پر مسجد کی مزید چار منزلیں تعمیر کر لیں۔ وقف بورڈ نے عدالت سے مسجد کو منہدم نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ تاہم عدالتی سماعت کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ مقامی ہندو تنظیم کے لوگوں کا فیصلے کے حوالے سے کیا موقف ہے کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر مسجد کو نہ گرایا گیا تو وہ خود مسجد کو گرا دیں گے، لیکن اب یہ معاملہ عدالت میں چلایا جائے گا یہ 5 اکتوبر تک زیر التوا ہے۔