سپریم کورٹ نے یوپی اور گجرات سمیت 10 ریاستوں کو بھیجا انسداد تبدیلیٔ مذہب قانون سے متعلق نوٹس، جواب طلب
27
M.U.H
16/09/2025
عدالت عظمیٰ نے آج کچھ ریاستوں کے انسداد تبدیلیٔ مذہب قوانین کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی۔ اس معاملے میں عدالت نے ریاستوں کو نوٹس دے کر جواب داخل کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ نوٹس اتر پردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، ہریانہ، گجرات، راجستھان سمیت 10 ریاستوں کو بھیجا گیا ہے، جن سے کہا گیا ہے کہ وہ 4 ہفتوں میں جواب جمع کریں۔ اس معاملے میں آئندہ سماعت 6 ہفتہ بعد رکھی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ عرضی دہندگان نے الگ الگ ریاستوں میں بنائے گئے ان قوانین کے جواز کو چیلنج پیش کیا ہے جو مذہب تبدیل کرنے پر سزا کا التزام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوانین کا استعمال بین مذہبی جوڑوں کو پریشان کرنے، تہواروں اور مذہبی تقاریب میں رخنہ ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن کی بنچ نے اس تعلق سے اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ، جھارکھنڈ، راجستھان اور کرناٹک میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی ان عرضیوں پر سماعت کی۔ فی الحال عدالت عظمیٰ نے عبوری روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔
گزشتہ سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ تبدیلیٔ مذہب ایک سنگین معاملہ ہے اور اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔ عدالت نے ایک عرضی پر اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی سے تعاون بھی طلب کیا تھا، جس میں مبینہ دھوکہ دہی والے تبدیلیٔ مذہب کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکز اور ریاستوں کو سخت قدم اٹھانے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عرضی دہندہ کے وکلا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ قوانین کا استعمال بین مذہبی جوڑوں کو پریشان کرنے، تہواروں اور مذہبی تقاریب میں رخنہ ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
سینئر ایڈووکیٹ چندر اودے سنگھ، جو سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی طرف سے پیش ہوئے، انھوں نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت بہت ضروری ہے، کیونکہ کئی ریاستیں ان قوانین کو مزید سخت بنا رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھلے ہی ان قوانین کو ’مذہب کی آزادی ایکٹ‘ کہا جا رہا ہے، لیکن یہ قانون مذہبی اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو محدود کر رہے ہیں اور بین مذہبی شادیوں اور مذہبی روایات کو ہدف بنا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 2024 میں اتر پردیش کے نادر قانون میں ترمیم کر شادی کے ذریعہ ناجائز مذہب تبدیلی پر سزا بڑھا کر کم از کم 20 سال کر دی گئی ہے اور اس میں ’ٹوئن کنڈیشنز‘ (جس طرح پی ایم ایل اے میں ہوتا ہے) شامل کر دی گئی ہیں۔ ترمیم میں یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ تیسرا فریق بھی شکایت درج کرنے کا اہل ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بین مذہبی شادی کرنے والے لوگوں یا کلیسا میں عام مذہبی تقریب کرنے والے لوگوں کو جمع بھیڑ کی طرف سے ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایڈووکیٹ ورندا گروور، جو نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی طرف سے پیش ہوئیں، انھوں نے بھی بتایا کہ ان کے موکل نے بھی ایسی ہی درخواست داخل کی ہے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ گجرات ہائی کورٹ نے 2021 میں گجرات مذہب تبدیلی قانون کی کچھ دفعات پر روک لگا دی تھی۔ اسی طرح کا اسٹے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بھی دیا تھا۔ یہ ریاست اب متعلقہ ہائی کورٹ کے عبوری احکامات کو چیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ پہنچی ہے۔