فلسطینیوں کی مزاحمت مقبوضہ علاقوں کی آزادی تک جاری رہے گی: مزاحمتی محاذ اعلامیہ
19
M.U.H
02/11/2025
تہران: اعلان بالفور کی 108 برس مکمل ہونے پر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس اعلامیے کو فلسطینی عوام اور ان کے ملک کے خلاف ظلم اور جرائم کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا کہ اعلان بالفور نے اس سرزمین کے باشندوں کے حقوق کی پامالی ، تشدد اور جبری نقل مکانی کا راستہ ہموار کیا ہے۔
بیان میں کہاگيا ہے کہ انسانی حقوق کے دفاع کا دعویٰ کرنے والی مغربی اور طاقتیں اور امریکہ درحقیقت غاصب صیہونی حکومت کی بمباری اور علاقے کے محاصرے اور رہائشی علاقوں کی تباہی کو سیاسی تحفظ فراہم کر کے عام شہریوں کے خلاف پرتشدد فوجی کارروائیوں میں شریک جرم ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئي ہے کہ "بالفور زخم" فلسطینی عوام اور حریت پسند لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
بیان کے مطابق فلسطینی عوام جڑیں اس سرزمین میں پیوست ہیں وہ اپنی بے دخلی یا بیخ کنی کی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں چاہیے اس کی کتنی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔
فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے آزادی کے حصول کے لیے فلسطین کی تمام قوتوں اور تنظیموں کے درمیان ایک "جامع اتحاد" کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی تعمیر نو اور اس کا مستقبل ہمارے درمیان مکمل اتحاد سے وابستہ ہے۔
بیان میں اپنی سرزمین کے دفاع کے حوالے سے فلسطینی قومی مسلح جدوجہد کے حق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک غاصب حکومت فلسطینی سرزمین سے مکمل پسپائي اختیار نہیں کرلیتی اس وقت تحریک مزاحمت جاری رکھے گی۔
واضح رہے کہ اعلان بالفورکا نتیجہ ، جس کے ذریعے برطانیہ نے 107 سال قبل فلسطین کی سرزمین صہیونیوں کے حوالے کردی تھی، فلسطینی عوام پر برسوں سے جاری ظلم، قبضے اور جارحیت کی شکل میں آيا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
2 نومبر 1917 کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے صیہونی تحریک کے ایک لیڈر لیونل والٹر ورٹسچلڈ کو ایک خط بھیجا تھا جو بعد میں اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خط میں انہوں نے سرزمین فلسطین میں صیہونی حکومت کے قیام کے لیے اپنے ملک کی حمایت کا اعلان کیا۔
بالفور نے اپنے خط میں یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ برطانوی حکومت اس کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا تھا جب فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد ملک کی آبادی کے5 فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران سرکاری اور غیر سرکاری فلسطینی اداروں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعلان بالفور کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر فلسطینیوں پر معافی مانگے لیکن لندن نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔