سنبھل میں مسجد سروے پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد امن بحال، مزید گرفتاریاں متوقع
11
M.U.H
27/11/2024
اتر پردیش کے سنبھل میں مسجد کے سروے کو لے کر ہونے والی جھڑپوں کے بعد آج چوتھے دن بھی علاقے میں امن قائم ہے۔ حکام نے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اسکول، کالج اور بازار کھول دیے ہیں، تاہم انٹرنیٹ کی سہولیات ابھی تک معطل ہیں۔ پولیس کے مطابق انٹرنیٹ خدمات جلد ہی بحال کی جائیں گی۔
دی وائر ہندی کی رپورٹ کے مطابق، سنبھل میں پولیس نے دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور سماجوادی پارٹی (ایس پی) کے رکن پارلیمنٹ زیا الرحمن برک سمیت تقریباً 2500 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ یہ واقعہ مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران پیش آیا۔
رپورٹ کے مطابق، اب تک چار مسلمانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ہجوم کے خلاف کسی مہلک ہتھیار کا استعمال نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں پولیس افسران اور اہلکاروں کو ہجوم پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سینئر افسر نے وضاحت کی کہ وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں نظر آنے والا ہتھیار دراصل ایک پیلیٹ گن تھا۔
ایس پی کرشن کمار وشنوئی نے بتایا کہ اتوار کو ہونے والے تشدد کے بعد پولیس نے فوری طور پر انٹرنیٹ بند کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث 100 سے زائد افراد کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ مزید 27 افراد کو گزشتہ 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا گیا، جن میں 25 مرد اور 2 خواتین شامل ہیں۔
پولیس نے اب تک اس واقعے کے سلسلے میں 7 ایف آئی آر درج کی ہیں اور 74 افراد کی شناخت کی جا چکی ہے۔ مرد آباد ڈویژن کے کمشنر آنجنے کمار سنگھ نے بتایا کہ تمام شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں تاکہ مزید قانونی کارروائی کی جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری ترجیح حالات کو معمول پر لانا ہے۔ لوگ تعاون کر رہے ہیں، نہ صرف تحقیقات میں بلکہ معمولات زندگی بحال کرنے میں بھی۔ امید ہے کل تک تمام چیزیں معلوم پر آ جائیں گی۔‘‘
دوسری طرف، ڈی ایم راجندر پینسیا نے علاقے میں کھلے کنٹینر، بوتلوں اور کین میں پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ امن و امان کو مکمل بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور توقع ہے کہ حالات جلد معمول پر آ جائیں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سول جج سینئر ڈویژن آدتیہ سنگھ نے 24 نومبر کو مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ آٹھ درخواست گزاروں نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے ایک سول مقدمے میں درخواست دی تھی۔ ان درخواست گزاروں کی قیادت ہندو انتہا پسند وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گیری کر رہے تھے۔
سنبھل ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر اس مسجد کو ایک ’تاریخی یادگار‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مغل بادشاہ بابر کے حکم پر تعمیر کی گئی تھی۔ تاہم، ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد دراصل بھگوان وشنو کے آخری اوتار کلکی کو وقف ایک قدیم مندر کی جگہ تھی۔ مرکزی درخواست گزار ہری شنکر جین کے وکیل اور بیٹے وشنو شنکر جین نے کہا کہ 1529 میں بابر نے ہری ہر مندر کو جزوی طور پر منہدم کر کے اسے مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔