’مدارس ہماری شناخت ہیں، ہم اس شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے‘، کل ہند تحفظ مدارس اجلاس سے مولانا ارشد مدنی کا خطاب
40
M.U.H
03/06/2025
نئی دہلی: ’’مدارس ہماری دنیا نہیں، دین ہیں۔ یہ ہماری شناخت ہیں اور ہم اپنی اس شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے۔‘‘ یہ بیان جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے گزشتہ شب اعظم گڑھ کے قصبہ سرائے میر میں منعقد ’کُل ہند تحفظ مدارس اجلاس‘ سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی اجلاس نہیں ہے، بلکہ موجودہ حالات میں مدارس کی حفاظت کو یقینی کرنے کے مقصد سے سنجیدہ غور و خوض اور آگے کی حکمت عملی طے کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ مدارس صرف تعلیم کے مراکز نہیں ہیں، ان کا مقصد صرف تعلیم و تعلم نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے نئی نسلوں کی سوچ کو تیار کرنا بھی رہا ہے۔
مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ آج جن مدارس کو غیر قانونی کہہ کر زبردستی بند کیا جا رہا ہے، یہ وہی مدارس ہیں جہاں سے سب سے پہلے انگریزوں کی غلامی کے خلاف آواز اٹھی تھی۔ انھوں نے تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب 1803 میں پورا ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا تھا، تب دہلی سے معروف مذہبی و روحانی ہستی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے مدرسہ رحیمیہ سے ایک ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر اعلان کیا کہ ملک غلام ہو چکا ہے، اس لیے غلامی سے آزادی کے لیے جنگ کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اس اعلان کے ان کے مدرسہ کونیست و نابود کر دیا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
مولانا مدنی نے اجلاس میں شریک لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 1857 کے انقلاب، جسے انگریزوں نے ’غدر‘ کہا، اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف دہلی میں 32 ہزار علما کو شہید کر دیا گیا۔ ہمارے بڑوں کی 150 سال کی قربانیوں کے بعد یہ ملک آزاد ہوا۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام بھی اسی مقصد سے کیا گیا تھا کہ وہاں سے ملک کی آزادی کے لیے نئے نوجوانوں کو تیار کیا جائے۔ انھوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج تاریخ سے انجان لوگ انہی مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتا رہے ہیں، یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہاں شدت پسندوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ مولانا مدنی کہتے ہیں کہ اتر پردیش سے لے کر اتراکھنڈ، آسام اور ہریانہ تک مدارس اور مساجد کے خلاف کارروائی مذہب کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں یہ تفریق اور ناانصافی کیوں؟ جبکہ آئین نے سبھی شہریوں کو یکساں حقوق اور مواقع دیے ہیں۔ مولانا مدنی نے واضح کیا کہ یہ سب ایک خاص نظریہ کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتوں اور اقلیتوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کی جا سکے، اور اکثریتوں کو اقلیتوں کے خلاف کھڑا کیا جا سکے۔ یہ اقتدار حاصل کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔
صدر جمعیۃ کے مطابق یہ ایک سیکولر ملک ہے، اور یہاں مذہب کی بنیاد پر کسی ایک طبقہ کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن آج کی سچائی یہ ہے کہ برسرعام ایک خاص طبقہ کو اس کے مذہب کی بنیاد پر ہدف بنایا جا رہا ہے اور اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کے شہری حقوق ختم کر دیے گئے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ حوصلہ، ایمانداری اور عزم کے ساتھ ان حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ جمعیۃ علماء ہند نے آزادی سے قبل اور اس کے بعد ملک میں امن، بھائی چارہ و اتحاد کے لیے کوشش کی ہے اور ہر ناانصافی و ظلم کے خلاف جنگ کی ہے، اور آگے بھی پوری طاقت سے کرتی رہے گی۔
مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ غیر قانونی بتا کر مدارس کے خلاف کی جا رہی حالیہ کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس سازش کے خلاف ایک بار پھر اپنی قانونی جدوجہد شروع کر دی ہے، کیونکہ مدارس کی حفاظت دراصل مذہب کی حفاظت ہے۔ ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور مدارس کی حفاظت کے لیے قانونی و جمہوری جنگ جاری رکھیں گے۔ انھوں نے مدارس کے ذمہ داران کو حوصلہ بخشتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند آپ کے ساتھ ہے، اور ہر طرح کی مدد و قانونی مدد آپ کو فراہم کرے گی۔