فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے سینئر رہنماء "طاهر النونو" نے اعلان کیا کہ ہم نے دوحہ مذاکرات میں بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا۔ ہم اس وقت بھی ثالثین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم نے غزہ میں انسانی امداد کے داخلے اور جارحیت کے خاتمے کی شرط پر 10 صیہونیوں کی رہائی کا پروپوزل دیا ہے۔ تاہم اس وقت مذاکراتی عمل کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن حماس کا موقف کسی بھی معاہدے کی بنیادی شرائط کے حوالے سے واضح ہے کہ جس میں اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء، غزہ سے جارحیت کا خاتمہ اور ان شرائط پر عملدرآمد کے لئے بین الاقوامی ضمانتوں کی فراہمی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ کی سیاسی خواہش ہو تو وہ اسرائیل پر جنگ بند کرنے کے لیے حقیقی دباؤ ڈال سکتا ہے۔ فی الحال، دوحہ (قطر) میں حماس اور اسرائیلی وفود کے درمیان غیرمستقیم مذاکرات جاری ہیں جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی تفصیلات طے کرنا ہے۔
دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کی تازہ ترین تفصیلات بتاتے ہوئے طاھر النونو نے کہا کہ حماس حالیہ مذاکرات میں مشکل مرحلے پر ہے اور اس وقت دو اہم معاملات پر تبادلہ خیال ہو رہا ہے:
اول: امداد کی آزادانہ و باعزت انداز میں رسائی اور اس کا تسلسل، جس میں قابض اسرائیل کی مداخلت یا ایسے طریقہ کار شامل نہ ہوں جو فلسطینی عوام کی عزت کو مجروح کرتے ہوں اور جبری نقل مکانی یا آبادیاتی تبدیلی کا باعث بنتے ہوں۔
دوم: پہلے مرحلے میں قابض فوج کی واپسی کا روڈمیپ کچھ اس طرح طے کیا جائے کہ جس سے شہریوں کی زندگی و مستقبل پر کوئی منفی اثر نہ پڑے اور اگلے مرحلے کے مذاکرات کی راہ ہموار ہو۔ اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے عالمی ضمانت بھی موجود ہونی چاہئے۔
حماس کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ کی پٹی سے تمام قابض افواج کا انخلاء اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی اولین شرائط میں سے ہے۔ ہم شروع سے ہی اس بات پر زور دے رہے ہیں اور اب اس وقت ایسے 60 روزہ معاہدے کے بارے میں بات ہو رہی ہے جس میں جامع جنگ بندی اور غزہ سے قابض افواج کے انخلاء پر مذاکرات ہوں گے۔ حماس اور اسرائیل اس سے پہلے جنوری 2025ء میں غزہ میں جنگ بندی پر معاہدہ کر چکے ہیں جسے کئی مراحل میں نافذ ہونا تھا۔ پہلا مرحلہ 42 دن تک جاری رہا۔ تاہم، اسرائیل نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور گذشتہ مارچ میں غزہ پر اپنے حملے دوبارہ شروع کر دئیے۔ صہیونی رژیم کی نسل کش جنگ نے اب تک غزہ میں تقریباً 58,000 شہداء اور 137,000 سے زائد زخمی چھوڑے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، ہزاروں افراد اب بھی اپنے گھروں کے ملبے تلے لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، 2.2 ملین فلسطینیوں کو غذائی قحط کا سامنا ہے۔