سعودی عرب اسوقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر غور بھی نہیں کر رہا، شہزادہ ترکی الفیصل
34
M.U.H
23/12/2025
اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کو دیئے گئے ایک غیر معمولی انٹرویو میں سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات اسوقت تک قائم نہیں کرے گا، جب تک فلسطینی مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولے کے تحت طے نہیں ہو جاتا۔
اسلام ٹائمز۔ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کو دیئے گئے ایک غیر معمولی انٹرویو میں دوٹوک اور واضح پیغام دیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق شہزادہ ترکی الفیصل دیگر سعودی حکام کے برعکس اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دینے سے نہ صرف کترائے نہیں بلکہ اپنے مؤقف کو بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنا تو دور کی بات، سعودی عرب اس وقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر بھی غور نہیں کر رہا ہے۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی صرف اُسی صورت ممکن ہے، جب اسرائیل ایک نارمل ریاست کی طرح بین الاقوامی قوانین کے مطابق طرز عمل اختیار کرے اور فلسطینی مسئلے کا منصفانہ حل سامنے آئے۔ اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات اس وقت تک قائم نہیں کرے گا، جب تک فلسطینی مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولے کے تحت طے نہیں ہو جاتا۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرے اور ان پر عمل کرے تو پھر سعودی عرب اس کے ساتھ معمول کے تعلقات پر غور کرسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی مؤقف میں نہ کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ کوئی ابہام ہے کہ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی کسی بھی ممکنہ پیش رفت کی بنیاد ہے۔ اس موقع پر ترکی الفیصل نے 2002ء کے عرب امن منصوبے کا حوالہ بھی دیا، جس کی بنیاد 1967ء سے پہلے کی سرحدوں اور فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کے منصفانہ حل پر رکھی گئی تھی۔ انھوں نے انٹرویو لینے والے اسرائیلی صحافی کو یاد دلایا کہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی امن عمل میں حصہ لیا تھا، جیسا کہ 1991ء کی میڈرڈ امن کانفرنس کے بعد ہوا تھا، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیونکہ اسرائیل امن کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تھا۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کے قتل اور فلسطینی رہنماء یاسر عرفات کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات امن عمل کے ناکام ہونے کی علامت تھے۔ یاد رہے کہ اسرائیل ہمیشہ سے یاسر عرفات کو زہر دیئے جانے کے الزام کی تردید کرتا آیا ہے، لیکن ٹھوس شواہد کے تمام اشارے صیہونی ریاست تک ہی جاتے ہیں۔ ترکی الفیصل نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں کارروائیاں، شام اور لبنان میں فوجی موجودگی، جنگ بندی معاہدوں سے انحراف اور گریٹر اسرائیل جیسے بیانات اعتماد پیدا نہیں کرتے۔ امریکی دباؤ سے متعلق سوال پر شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفادات کے تحت بناتا ہے اور کسی بھی بیرونی دباؤ کے تحت فیصلے نہیں کرتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے خود وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے سامنے واضح کیا تھا کہ دو ریاستی حل کے بغیر اسرائیل سے معمول کے تعلقات ممکن نہیں۔
شہزادہ ترکی نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ 7 اکتوبر 2023ء کے حماس کے حملے سے پہلے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے قریب تھے۔ اس پر ان کا مزید کہا تھا کہ یہ محض قیاس آرائیاں تھیں اور سعودی عرب کا مؤقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ فلسطینی مسئلے کے حل کے بغیر اسرائیل کے ساتھ کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اگر اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم کے بعد کوئی نیا رہنماء آتا ہے تو اسے بھی دو ریاستی حل کو تسلیم کرنا ہوگا۔ انھوں نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا نہیں لیکن سعودی عرب کا اصولی مؤقف تبدیل نہیں ہوگا۔