اراولی پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس خوش آئند، ماحولیات سے جڑے دیگر معاملات میں بھی فوری مداخلت ضروری: جے رام رمیش
10
M.U.H
30/12/2025
کانگریس کے سینئر رہنما اور ماحولیاتی امور کے حوالے سے سرگرم آواز جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک تفصیلی پوسٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے حالیہ اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے اراولی پہاڑی سلسلے کی نئی تعریف سے متعلق اپنے ہی 20 نومبر 2025 کے فیصلے کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے واپس لینا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ماحول کے تحفظ کے لیے ایک خوش آئند قدم بھی ہے۔ ان کے مطابق، اس فیصلے کو حکومت کی جانب سے پورے جوش و خروش کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا، اس کے باوجود عدالت نے ماحولیات کے وسیع تر مفاد میں مداخلت کی۔
جے رام رمیش نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ اراولی معاملے کی طرح ماحولیات سے جڑے تین دیگر نہایت اہم اور فوری نوعیت کے مسائل ہیں، جن پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے مداخلت کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 6 اگست 2025 کو عدالت نے راجستھان حکومت اور حکومتِ ہند کے اس تجویز پر روک لگائی تھی، جس کے تحت سرسکا ٹائیگر ریزرو کی حدود ازسرنو طے کر کے تقریباً 57 بند کانوں کو دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار کی جا رہی تھی۔ جے رام رمیش کے مطابق، اس تجویز کو محض روکے رکھنا کافی نہیں بلکہ اسے واضح طور پر مسترد کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس سے جنگلی حیات اور محفوظ قدرتی خطے کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے اپنی پوسٹ میں دوسرا اہم نکتہ 18 نومبر 2025 کے عدالتی اقدام کو قرار دیا، جب سپریم کورٹ نے 16 مئی 2025 کے اپنے ہی اس فیصلے پر نظرِ ثانی کا دروازہ کھولا تھا، جس میں ماضی سے لاگو کی جانے والی ماحولیاتی منظوریوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جے رام رمیش کے مطابق، سابقہ اثر کے ساتھ دی جانے والی ایسی منظوریوں کا تصور انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور یہ طرزِ عمل انتظامی نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور ماحولیاتی منظوری کبھی بھی سابقہ تاریخ سے نافذ نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اکثر قوانین اور ضوابط کو جان بوجھ کر اس یقین کے ساتھ نظرانداز کیا جاتا ہے کہ منصوبہ شروع ہو جانے کے بعد فیصلے کے عمل کو کسی نہ کسی طرح سنبھال لیا جائے گا۔
اپنی پوسٹ کے آخری حصے میں جے رام رمیش نے نیشنل گرین ٹریبونل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کا قیام اکتوبر 2010 میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے تحت، سپریم کورٹ سے وسیع مشاورت اور اس کی مکمل حمایت کے ساتھ عمل میں آیا تھا۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس کے اختیارات کو بتدریج کمزور کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، اب وقت آ گیا ہے کہ سپریم کورٹ مداخلت کرے تاکہ نیشنل گرین ٹریبونل بغیر کسی خوف یا جانبداری کے، قانون کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکے۔