شیخ محمد حسین بن علی بن علی آل کاشف الغطا
سید نجیب الحسن زیدی
ایک قوم کی ترقی کے جہاں بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں وہیں یقنا ایک پہلو اس کی اپنی سابقہ تاریخ سے آشنائی بھی ہے جس کی روشنی میں وہ یہ سمجھ سکتی ہے کہ اس کے پاس کیا کچھ سرمایہ رہا ہے اور اب وہ کہاں کھڑی ہے ۔ اس سرمایہ میں اگر کچھ ایسی شخصیتیں بھی ہوں جنکی زندگی سعی مسلسل و عزم پیہم سے عبارت ہو جنہوں نے قوم سے کچھ نہ لیکر اسے دیا ہی ہے تو ظاہر ہے ان شخصیتوں کی شناخت ہمیں ان معیاروں کو پہچنوانے میں کام آئے گی جن کے تحت ہم موجودہ دور کے نفسانفسی کے عالم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کون سی شخصیت ہمارے لئیے مفید ہے اور کون سی محض شخصیت ہے اور بس اپنے لئیے ہی ہے ۔ علاوہ از ایں اگر ہم صحافت کو قوم کی بیداری کا ایک پلیٹ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھیں تو بھی ہمارے لئیے ضروری ہے کہ بہت سے دیگر ضروری موضوعات کے ساتھ ساتھ یہ جانیں کہ طول تاریخ میں ہمارے درخشان ماضی کو رقم کرنے میں ہماری علمی شخصیتوں کا کیا کردار رہا ہے ؟ لہذا موجودہ دور کی نزاکتوں کو دیکھتے ہوئے اپنے گزشتہ کارناموں کی باز بینی کی کی ضرورت سے انکار ناممکن ہے اس لئیے کہ یوں ایک طرف تو ہم ماضی میں اپنی درخشان تاریخ کی کچھ شد بدھ حاصل کری لیںگے ساتھ ہی انجام شدہ امور کا تسلسل ہماری موجودہ کارکردگی سے بھی برقرار رہے گااور یہ امر ہمیں جمود کے دلدل میں بھی نہیں دھنسے گالہذا سابقہ علماء اور قوم کے مردان تاریخ سے آشنائی جہاں ماضی کے علمی سرمایہ سےہمیں بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کرے گی وہیں ہمارے لئیے تحقیق کے نئے دریچوں کو کھولنےکا سبب بھی بنے گی۔پیش نظر تحریر فکری و علمی تحریک کے ہراول دستہ سے متعلق ایسی شخصیت کے بارے میں ایک مختصر تعارف پر مشتمل ہے جسکی پوری زندگی امت اسلامی کے درمیان اتحاد کی کی مساعی جمیلہ سے عبارت تھی۔ اس شخصیت کے افکار اور کارمانے اس لئیے بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ خشک فکر ملاوں اور روشن خیال نام نہاد دین سے بیزاردانشوروں کے برخلاف آپکی کوشش یہ تھی کہ شیعہ اور سنی علماء ایک دوسرے کو بہتر طور پر پہچانیں اور ایک دوسرے کے مشترکہ سرمایہ سے استعمار اور سامراج کے مقابلہ میں فائدہ حاصل کر سکیں ۔شیخ محمد حسین کی سیاسی اور اور علمی شخصیت کاجائزہ لینے سے قبل کاشف الغطا خاندان کی اہم شخصیتوں کا ایک مختصر تعارف مورد گفتگو شخصیت کی پرورش کے ماحول کوبہتر طورپر روشن کر سکتاہے ۔
خاندان کاشف الغطاء:
۱۳ویں؍۱۴ویں؍ صدی ہجری کی دہایئوں میں آل کاشف الغطاء عراق کے شیعہ امامی علماء کا محترم خاندان ہے ۔اس خامدان کے افراد کا تعلق قبیلہ بنی مالک سے ہے اور یہ بیان ہوا ہے کہ انکا سلسلہ نسب ( ۱) امام علی علیہ السلام کے صحابی مالک بن حارث بن عبد یغوث جو کہ اشتر نخعی(متوفی ۳۷ ہجری) کے نام سے معروف ہیں تک پہونچتا ہے اسی بنا پر ان لوگوں کو مالکی بھی کہا گیا ہے ۔
انکے آباو اجداد شہر حلہ کے اطراف میں ’’جناجیہ ‘‘یا’’ جناجیا‘‘یا ’’قناقیا‘‘نامی دیہاتوں میں رہتے تھے ۱۲؍ہجری کی آخری عشرے میں اس خاندان کے اسلاف اور بزرگوں میں ایک بزرگ یعنی ’’ خضر بن یحیی ‘‘ (متوفی ۱۱۸۰) نے نجف کی طرف کوچ کیا اور اسی سبب سے آل کاشف الغطاء کے افراد نے’’جناحی ‘‘ نام سے بھی شہرت پائی (۲) آل کاشف الغطا ء سے ،معروف علماء سامنے آئے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے زمانہ میں عراق ایران اور بعض دیگر اسلامی ممالک اور شیعی معاشروں میں اہم علمی اور سیاسی آثار کا سرچشمہ رہے ہیں خاندان کاشف الغلطاء کی علمی اور سیاسی شخصیات حسب ذیل ہیں کہ جنہیں انکے سال وفات کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے ۔
۱۔ ’’جعفر بن خضر بن یحیی جناجی حلی نجفی ‘‘معروف بہ شیخ جعفر کاشف الغطاء (۱۲۲۷۔۱۱۵۶ھ):
آل کاشف الغطاء کے معمار جو کہ جعفر کبیر اور شیخ مشایخ کے نام سے بھی معروف ہوئے ۔ آپ کواپنی مشہور فقہی کتاب ’کشف الغطاء ‘‘لکنے پرکاشف الغطاء کے لقب ملا ۔ آپ ایک پارسا مجتہد ہونے کے ساتھ ساتھ اہل عبادت اور ایک بیداراورسعی مسلسل کے بعد بھی نہ تھکنے والے مجاہدکے طور پر جانے جاتے۔وہابیوں کے نجف پر حملہ کے وقت آپکی جانفشانیاں نیز روسی در اندازوں کے مقابل آپکی رشادتیں کہ جنہوں نے ایران کے بعض حصوں پر قبضہ جما لیا تھا تاریخ میں محفوظ ہیں ۔آپ نے نجف میں اس وقت وہابیوں کی یلغار کو پسپا کیا جب وہ کربلا میں قتل عام کر چکے تھے ١٣١٦ھ میں کربلائے معلی میں وہابیوں کے قتل عام کے سلسلہ سے ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں :
دخل اثنی عشرالف جندی ولم یکن فی البلد ة الاعد قلیل من الرجال المستضعفین لان رجال کربلاء کانوا قد خرجوا یوم ذلک الی النجف الاشرف لزیارت قبرالامام امیرالمومنین یوم الغدیر ،فقتل الوھابیون کل من وجدوھم ، فقدرعددالضحایافی یوم واحدبثلاثآلاف ، واماالسلب فکان فوق الوصف ویقال ان مائتی بعیرحملت فوق طاقتھا بالمنھوبات الثمینۃ۔ ( تاریخ العربیہ السعودیہ ،ص:١٢٦.)۔(جاری)
سعودبن عبدالعزیز کی سپہ سالاری میں بارہ ہزار وہابی فوجی کربلامیں داخل ہوئے در آن حالانکہ کربلاکے اکثر لوگ اس دن عید غدیر کی مناسبت سے امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نجف اشرف گئے ہوئے تھے اور شہر میں ضعیف العمر و کمزور لوگو ہی باقی بچے تھے اس کے باجود انہوں نے جس کسی کوبھی وہاں پایا قتل کیا یہاں تک کہ اس دن مارے جانے والوں کی تعدادتین ہزار تک پہنچ گئی اور دوسو اونٹوں پر وہاں سے لوٹا مال بار کر کے لے گئے اس قدر اموال غارت کیا کہ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
محمد قاری غروی تاریخ نجف میں مجموعہ شیخ خضر سے نقل کرتے ہیں :
وہابیوں نے حبیب ابن مظاہر کی قبر پر بنے لکڑی کے صندوق کو توڑ کر جلا ڈالا اورروضہ کے قبلہ کی جانب والے صحن میں اسی سے قہوہ بنایا ، انہوں نے حسین علیہ السلام کی قبرمبارک کے صندوق کو بھی توڑنا چاہالیکن اس کے اردگرد لوہے کی سلاخیں جڑی ہونے کی بنا پر توڑنے میںکامیاب نہ ہوسکے ۔ (نزجۃ الغری فی تاریخ النجف الغری السری،ص:٥٢.)
نجد کے وہابی مورخ شیخ عثمان بن بشرلکھتےہیں :
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبرکے گنبد کوویران کیااورقبر کے اس صندوق کوجس میں یاقوت ،زمرد اورجواہرات جڑے ہوئے تھے اٹھاکرلے گئے اورشہر میںجتنا مال ، اسلحہ ، لباس ، قالین و فرش ، سونا ، چاندی اورقرآن کے عمدہ نسخے ملے لوٹ کر لےلئے اورظہر آتے آتے شہر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔( عنوان المجد فی تاریخ نجد،جلد، ص:١٢١
ایک اور وہابی مصنف صلاح الدین لکھتےہیں :
١٢١٦ھ میںسعودی فرانروا ، نجد، جنوبی قبائل ، حجاز اوردوسرے علاقوں کے افراد پرمشتمل ایک بڑا لشکر لیکر عراق کے قصد سے چلا ،ذیقعدہ کے مہینہ میںکربلا پہنچا اس نے شہر کی تمام برجیاں مسمار کر دیں تمام دروازے خاک سے یکساں کر دئیے ، گلیوں اوربازاروں میں جتنے لوگ موجود تھے سب کو قتل کردیا اورظہر آتے آتے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کرکے شہر سے خارج ہوگیا۔
مال غنیمت کا پانچواں حصہ خود امیرِسعودنے لیا اورباقی مال میں سے ہرپیادہ کو ایک حصہ اورسوارکودوحصے تقسیم کئے( تاریخ مملک السعودی،ج۳،ص:٧٣
شیخ عثمان نجدی لکھتے ہیں :
وہابی یکایک ایسی حالت میں کربلامیں وارد ہوئے کہ وہاں کے لوگ غافل و بے خبر تھے بہت سے لوگوں کو گلی کوچوں ، بازاروں اورگھروں میں گھس گھس کر قتل کیا، قبرحسین علیہ السلام کے اوپری حصے کوویران کردیا اورقبے میںجوکچھ تھا اسے غارت کیا اورشہر کے اندر جتنا مال ، اسلحہ ، لباس ، قالینیں ، سونا، چاندی اورقرآن کے نفیس نسخے ملے اٹھاکر لے گئے ، ظہر آتے آتے دو ہزار لوگوں کو قتل کر کے وہ شہر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔( عنوان المجد فی تاریخ نجد،جلد۱۔ص ١٢١ ،حوادث سال ، ١٢١٦ ھ
بعض نے لکھا ہے کہ وہابیوں نے ایک ہی رات میں بیس ٢٠ہزارافرادکوقتل کیا۔ (تاریخچہ نقد وبررسی وہابی ھا:ص،١٦٢
مرزاابوطالب اصفہانی اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں :
لندن سے واپسی پر کربلاونجف سے گزرتے وقت میں نے دیکھا کہ پچیس ٢٥ہزاروہابی کربلامیں داخل ہوئے اور(اقتلوا المشرکین واذ بحوا الکافرین ۔
جو فریاد بلند کرتے جا رہے تھے ، انہوں نے پانچ ہزارلوگوں کوقتل کیا اورزخمی ہونے والوں کا تو کچھ حساب ہی نہ تھا ، حرم امام حسین علیہ السلام کا صحن مبارک لاشوں سے بھرگیااورسربریدہ لاشوں سے خون جاری تھا ۔
گیارہ ماہ بعد دوبارہ کربلاگیاتودیکھا کہ لوگ اس دل خراش حادثہ کونقل کرکے گریہ کررہے ہیں جس کے سننے سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے (مسیرطالبی،ص:٤٠٨
اتنے خطرناک حملے اور سفاکانہ قتل عام کے بعد ظاہر ہے لوگ ہمت ہار جاتے ہیں لیکن جب انہیں لوگوں نے جنہوں نے کربلا کو تاراج کیا نجف کا رخ کیا تو انہیں منھ کی کھانی پڑی اور تاریخ نے یہ لکھا کہ :
١٢١٦ھ میں وہابیوں کا لشکر اہل کربلا کےسفاکانہ قتل عام اورروضہ امام حسین علیہ السلام کی بے حرمتی کے بعد سیدھا نجف اشرف کی طرف بڑھا لیکن نجف کے لوگ کربلا میںہونے والے قتل وغارت سے باخبر ہوچکے تھے لہٰذا دفاع کے لئے تیار ہوگئے یہاں تک کہ عورتیں گھروں سے باہرنکل آئیں اوراپنے مردوں کو دفاع کرنے پرابھارنے لگیں اور انہیں جوش شجاعت دلایا کہ وہ ان کا مقابلہ کریںاور وہابیوں کے قتل وغارت گری کانشانہ نہ بنیں ،جس کے نتیجہ میں وہابی لشکر نجف اشرف میں داخل نہ ہوسکا ۔( ماضی النجف و الحاضرھا،جلد ۱ ، ص: ۳۲۵
١٢٢٠ھ یا ١٢٢١ھ میں وہابیوں نے سعود بن عبد العزیز کی سربراہی میں دوبارہ نجف اشرف پرحملہ کیا لیکن شہر میں برجوں اور فصیلوں کے ہونے نیزباہر سے دفاع کے لئے کھودی گئی خندق اور شیخ جعفر نجفی (کاشف الغطائ)کی قیادت میں دوسوکے قریب طالب علموں اورعام افرادکے دن رات شہر کے دفاع میں مشغول رہنے کے سبب ان سے کچھ بن نہ پڑی ، شیخ کاشف الغطا ء خود اپنے دور کے مرجع علم اورانتہائی بہادر انسان تھے ان کی قیادت اور عوام کے ساتھ طلاب کرام کی جانفشانیوں کے سبب وہابیوں کو منھ کی کھانی پڑی اور کچھ حاصل نہ لگا ۔
شیخ جعفر کاشف الغطا ء کاگھر اسلحوں کاانبار خانہ بناہواتھا اورانہوں نے شہر کے ہردروازہ اورہربرج پرکچھ طالب علموں اوردوسرے افراد کو دفاع کے چوکس و چوکننا تعینات کر رکھا تھا ۔
شیخ حسین نجفی ،شیخ خضر شلال ،سیدجواد عاملی صاحب مفتاح الکرام ،اور شیخ مہدی ملاکتاب جیسی عظیم شخصیا ت شہر کا دفاع کر رہی تھیں جنکا دور- دور تک شہرہ تھا ۔
اس حملہ میں سعود کے لشکر کی تعداد پندرہ ہزار تھی اور یہ پندرہ کے پندرہ ہزار نڈر لڑاکے تھے لیکن نجف اشرف کے لوگوں نے لاکھ جتن کے بعد بھی انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا اور جی جان سے شہر کا دفاع کیا ۔ ایک دن بعض وہابی سپاہی شہر کی دیوار پر چڑھنے میں کامیاب بھی ہو گئے اور قریب تھاکہ شہر کو اپنےکنٹرو ل میں لے لیں لیکن جب ان کا شہر کا دفاع کرنے والے مسلح افراد سےسامنا ہوا اور ان سے نہ نمٹ سکے تو واپس پلٹ گئے ، محاصرہ نجف کے دوران چونکہ دفاع کرنے والے لوگ برجیوں اور فصیلوں کے اوپر سے وہابی لشکر کونشانہ بنارہے تھے لہٰذا ان کے سات سوافراد کوفی النار کردینے میں کامیاب ہوئے ، انجام کار سعوداپنی باقی ماندہ فوج کو لیکر نجف اشرف سے ناامید واپس پلٹ گیا ۔
اہل نجف نے لشکر سعود کے پہنچنے سے پہلے ہی خزانہ امیرالمومنین علیہ السلام کو بغداد اوروہاں سے کاظمین منتقل کرکے وہاں پہ امانت کے طور پر رکھ دیا یوں یہ خزانہ اس وحشی غارت گر قوم کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رہ گیا ۔
نجدی مورخ ابن بشرتاریخ نجد میں سعود کے نجف اشرف پرحملہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
سعود ابن عبد العزیزنجد اوراس کے نواح سےایک بہت بڑالشکر لے کر عراق کے مشہور شہر (نجف اشرف)پہنچا ، سپاہ اسلام (وہابیوں )کوشہر کے اطراف میں پھیلادیا اورشہر کی برجیوں و فصیلوں کی تخریب کا حکم دیا ۔
جیسے ہی اس کے ساتھی شہر کے نزدیک پہنچے تو بہت گہری اورچوڑی خندق کوپایا جس سے عبور نہ کرسکے ، فریقین کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں شہر کے بر جیوں اور دیوار وںسے ہونے والی گولہ باری کے اثر میں مسلمانوں (وہابیوں) کے کچھ لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے انہوں نے شہر سے عقب نشینی کی اورگرد ونواح کولوٹ مار کاشکاربنایا۔( عنوان المجد فی تاریخ نجد،جلد ۱ ،ص : ١٣٧.
اگلے سال پھر سعودبن عبد العزیز نے بیس ٢٠ہزارکا لشکر لیکر نجف اشرف پرحملہ کردیا لیکن جب دیکھاکہ لوگ کاشف الغطاء کی قیادت میں تو پوں اوربندوقوں سے دفاع کے لئے آمادہ ہیں تونجف کوچھوڑکرحلہ کارخ کرلیا ۔( مفتاح الکرامة :جلد،۵، ص:۵۱۲ )
دنیا نے اس وقت ایک مرجع کی طاقت بھی دیکھ لی اور اس حکومت کی طاقت بھی دیکھ لی جو اسلحوں سے لیس استعمار کی پشت پناہی میں کربلائی عزم سے ٹکرائی تھی ۔
۲۔موسی بن جعفر کاشف الغطاء ۱۲۴۳۔۱۱۸۰ ھ :
’ فقیہ ، اصولی ، ادیب ، شاعر ، اور شیخ جعفر کاشف الغطاء کے بڑے فرزند جو کہ اپنے والد بزرگوار کی حیات میں تدریس ،فتوی نیز لوگوں کے مسائل کے حل کرنے اور عام لوگوں کی جواب دہی میں اپنے والد کے شریک کار تھے ۔ بعض علماء نے آپ کی علمی اور فقہی وقت نظری کوآپ کے والد کی نظر پر فوقیت و ترجیح دی ہے ۔(۳) آپکے بے شمار شاگردوں نے جن میں آپکے بھائی شیخ محمد حسن آل کاشف الغطاء ۱۲۶۲۔۱۲۰۱ھ کے ساتھ شیخ محمد حسن معروف بہ صاحب جواہر متوفی ۱۲۶۶ ھبھی شامل ہیں
آپکے دروس سے استفادہ یا ہے ۔
۳۔ علی بن جعفر آل کاشف الغطاء (۱۲۵۳۔۱۱۹۷ھ
فقیہ ادیب ، شاعر آپ کو عظیم الشان علمی منزلت کی بنا پر ’’محقق ثالث‘‘بھی کہا گیا ہے آپ کے بھائی شیخ موسیٰ کے انتقال کے بعد دینی مرجعیت آپ اور شیخ محمد حسن (معروف بہ صاحب جواہر متوفی ۱۲۶۶ ھ )تک مشترکہ طور پر پہونچی ۔
۴۔ حسن بن جعفر آل کاشف الغطاء ( ۱۲۶۲۔ ۱۲۰۱ھ :
فقیہ ، اصولی ، ادیب و شاعر آپ نے اپنے والد کے پاس مقدمات کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپنے اپنے بھائی شیخ موسیٰ ، سید محمد جواد عاملی اور دیگر اساتذہ کے دروس میں شرکت کی اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کی لیکن آپکی زیادہ تر شہرت فقہ میں تھی انوارالفقاہہ نامی کتاب میدان فقاہت میں آپ کے تسلط کی دلیل ہے ۔ ۱۲۵۸ھ میں جب نجیب پاشا حاکم عثمانی نے شورش کی اور کربلا پر قبضہ کے بعد ۱۲۵۹ھ میں نجف پر حملہ کا قصد کیا توآپ نے ہی تدبیر اور ذکاوت کے ذریعہ اس کو ہدف تک پہونچنے سے باز رکھا ۔
۱۲۶۰ ھ میں جب نجیب پاشا نے مختلف اسلامی فرقوں کے علماء اور فقہاء کو بغداد بلایا تاکہ سید علی محمد باب شیرازی (متوفی ۱۲۶۶ ھ کے عقاید اور اسکے دعوں کے سلسلہ میں اظہار نظر کریں تو آپ شیعہ علماء کے ایک وفد کے ساتھ میٹنگ میں حاضر ہوئے اور جلسہ میں حاضر فقہاکے نظریات کے ہجوم کے درمیان آپ کے نظریہ کو قبول کیا گیا یہ امر خود آپ کے لئے اور شیعہ فقہاء کے لئے ایک بڑی کامیابی کے طور پر گردانا گیا اور وسیع پیمانے پر اس کی شہرت ہوئی ۔(۴)
۵۔مہدی بن علی آل کاشف الغطاء :۱۲۸۹۔۱۲۲۶ ھ:
فقیہ ، اصولی ، مرجع تقلید ، ادیب ،شاعر نجف میں پیدا ہوئے اسلامی علوم کو اپنے والد ماجد اور اپنے چچا شیخ حسن اور بھائی شیخ محمد اور دیگر نجف کے علماء سے سیکھا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے ۔ اپنے زمانہ میں فقہ و اصول کے بر جستہ مدرسوں میں تھے شیخ مرتضیٰ انصاری بہت سے شرعی اور عرفی امور میں آپ کی طرف ارجاع دیتے تھے شیخ انصاری کے انتقال کے بعد ایران ،قفقازاور عراق کے بہت سے شہروں کے عوام آپ کی تقلید کرتے تھے ۔
اودھ ہندوستان کے موقوفات کی رقم نجف میں آپ کے ہی ہاتھوں تقسیم ہوتی تھی آپ نے نجف اور کربلا میں دو دینی مدارس کی بھی بنیاد ڈالی جس سے طلاب نے استفادہ کیا۔ (۵)
۶۔عباس بن علی آل کاشف الغطاء : (۱۳۱۴۔۱۲۴۲) :
فقیہ ، اصولی ، ادیب ،شاعر نجف میں پیدا ہوئے بچپنے میں ہی والد کا انتقال ہو گیاچنانچہ اپنے چچا شیخ محمد حسن اور اپنے بھایئوں کی زیر سرپرستی تربیت پائی ۔ اپنے بھائی شیخ حبیب آل کاشف الغطاء متوفی ۱۳۰۷ ھ کے انتقال کے بعد دینی ریاست کے عظیم مقام تک پہونچے ۔’’ ہندیہ ‘‘ میں انتقال کیا اور نجف میں سپرد خاک ہوئے ۔
۷۔’’ محمد بن علی آل کاشف الغطاء ‘‘ متوفی ۱۲۶۸ھ :
فقیہ ، اصولی ، شاعر ، نجف میں پیدا ہوئے اپنے خاندان کے علماء سے علم حاصل کیا ، اپنے چچا ( صاحب انوار الفقاہہ) اور شیخ حسن (صاحب جواہر) کے انتقال کے بعد عراق کے کچھ شیعوں کے مرجع تقلید قرار پائے ۔ ۱۳ ہجری کے عشرے کے بہت سارے فقہا آپ کے شاگرد تھے اور انہیں میں سے کچھ لوگوں نے آپ سے اجازہ بھی حاصل کیا آپ نے عثمانی حکام کے ذریعہ عوام کی مشکلات کے حل کے سلسلہ میںبھی بہت کوشش کی ۔(۶ )
۸۔محمد رضا بن موسیٰ آل کاشف الغطاء ( ۱۲۹۷ ۔۱۲۳۸ھ:
فقیہ عالم نجف میں پیدا ہوئے مقدمات اور علوم عالیہ کو شیخ ابراہیم قطفان ( متوفی ۱۲۷۹ھ ، شیخ موسی خمایسی ، شیخ احمد دجیلی ، متوفی ۱۲۶۵ ھ اور اپنے چچا شیخ حسن اور صاحب جواہر سے سیکھا آپ نجف کے ایک داخلی جھگڑے کی بنیاد پر شہر کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور کاظمین چلے گئے ۔ ۳ سال وہاں سکونت کے بعد ۱۲۹۰ھ میں نجف واپس پلٹ آئے ۔(۷)
۹۔ موسی بن محمد رضا آل کاشف الغطاء ( ۱۳۰۶۔۱۲۶۰ھ) :
فقیہ ، ادیب ۔ نجف میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنے تعلیمی مراحل کو اپنے عصر کے علماء من جملہ شیخ محمد حسین کاظمی (متوفی (۲۳۰۸ھ کے پاس طے کیا پھر سامرا آگئے اور مرزا محمد حسن شیرازی کے درس میں شریک ہوئے والد ماجد کی در گزشت کے بعد ایک بار ۱۲۹۸ ھ میں اصفہان کا سفر کیا اور اس کے بعد پھر ۱۳۰۶ھ میں ایران روانہ ہو گئے اور تہران میں سفر کے دوران ہی دنیا سے رخصت ہوئے( ۸)
۱۰۔ عباس بن محمد رضا آل کاشف الغطاء ( ۱۳۲۳۔۱۲۵۳ھ،:
شاعر نجف میں پیدا ہوئے مقدماتی علوم کے مراحل کو طے کرنے کے بعد سامرا چلے گئے وہاں فق و اصول کے دروس خارج کو شیخ مرتضی انصاری ، مرزا حبیب اللہ رشتی ، مرزای شیرازی اور اپنے چچا زاد بھائی شیخ مہدی آل کاشف الغطاء سے پڑھا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے آپ نے فقہ و اصول کے موضوع پر متعدد آثار یاد گار کے طور پر چھوڑے فقہی اور اصولی مباحث کی تشریح کے عنوان سے کافی اشعار بھی آپ سے منسوب کئے جاتے ہیں (۹)
۱۱۔ احمد بن علی آل کاشف الغطاء (۱۳۴۴۔ ۱۲۹۲ ھ ) :
فقیہ و مرجع تقلید دروس عالی کی تکمیل کے لئے سامرا کا سفر کیا اس کے بعد نجف واپس پلٹ آئے ایران کے انقلاب مشروطیت کے بعد ۱۳۲۴ھ میں مشروطیت کی حمایت کی بنا پر اپنے استاد آخوند خراسانی سے دور ہو گئے اور سید کاظم یزدی سے نزدیک ہو گئے جو مشروطیت کے مخالف تھے عمر کے آخری ایام میں سیدیزدی کے انتقال کے بعد مراجع تقلید میں شمار ہوتے تھے مرزا نائنی اور سید ابولحسن اصفہانی جیسے علماء کے باوجود ایران ، عراق اور افغانستان میں لوگ آپ کی تقلید کرتے تھے آخرانجام نجف میں دعوت اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہوئے ۔
۱۲۔ مرتضی بن عباس آل کاشف الغطاء ۱۳۴۹ا۔۱۲۹۱ ھ :
فقیہ ، اصولی ،متکلم ، مصنف اور شاعر ۔ نجف میں پیدا ہوئے علم اصول کو آخوند خراسانی (۱۳۲۹ھ )سے پڑھااور فقہ کو محمد کاظم یزدی سے ، نثر و اشعار کی صورت میں فقہ و اصول کے موضوع پر متعدد آثار آپ نے چھوڑے ہیں آپ کے بعض آثار وہابیت کے شبہات اور ان کے اعتراض کے جواب میں ہیں۔
۱۳۔ علی بن محمد رضا آل کاشف الغطاء ( ۲۳۵۰۔۱۲۶۷ھ :
عالم ،ادیب، مورخ و شاعر نجف میں پیدا ہوئے اور وہیں علمی مدارج کو طے کیا عوام کی اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلہ میں کافی جدو جہد کرتے تھے بغداد کے عثمانی حکام میں بھی اثر و رسوخ تھا ۔ سری پاشا بغداد کے حاکم کے ساتھ بھی کہ جو ادیبوں میں سے تھا اور ادب دوست بھی تھا اس سے آپ کی رفاقت تھی ۔ آپ نے اس کے ذوق کی کافی تعریف بھی کی ہے ۔ ۱۲۹۵ھ میں ایران کا سفر کیا اور ۷ سال تک ایران کے مختلف شہروں تہران ، اصفہان ، شیراز اور مشہد میں رہے اور ۱۳۰۲ھ کو نجف واپس آگئے اسی طرح آپنے شام ، حجاز ، مصر، اسلامبول اور ہند کے سفر بھی کئے آپکی اہم کتاب الحصون المنیعہ فی طبقات الشیعہ ہے کتاب کا اصل خاکہ ۱۲ جلدوں پر مشتمل تھا لیکن ۷ جلدہی پوری کر سکے آپ کا دوسرا اثر سمیر الحاضر و انیس المسافر ۵ جلدوں میں ہے جو کشکول کی شکل میں ہے ۔
۱۴۔ ہادی بن عباس آل کاشف الغطاء (۱۳۶۱۔۱۲۸۹ھ :
فقیہ ، مورخ ، ادیب اور شاعر ، نجف میں آنکھ کھولی فقہ و اصول کو شیخ الشریعہ اصفہانی ، سید محمد کاظم یزدی اور شیخ محمد طہ نجف (متفوی ۱۳۲۹ھ سے پڑھا شعر و ادب میں شہرت یہاں تک پہونچی کہ عراق کی ۱۴ ویں دہائی کی ادبی تحریک کے معماروں میں شمار ہوئے آپ نے مختلف اورمتنوع آثار میراث میں چھوڑے ہیں کہ اس بارے میں آقا بزرگ نے الذریعہ میں اشارہ کیا ہے (۱۱) ۔
۱۵۔ محمد رضا بن ہادی آل کاشف الغطا ( ۱۳۶۶۔۱۳۱۰ھ :
فقیہ ، ادیب ، شاعر، نجف میں پیدا ہوئے ابتدائی علوم حاصل کرنے کے بعد فقہ و اصول کو اپنے والد اور دیگر نجف کے علماء سے حاصل کیا ادب پر تسلط ہونے کی بنا پر آپ کے آثار مختلف مجلوں میں شائع ہوئے سر انجام بیروت میں انتقال کیا اور نجف میں مدفون ہوئے ۔
اس خاندان کے علماء اور دانشوروں نے اجتماع اور سیاست کے میدان میں ایک بارز کردار ادا کیا ہے اس خاندان کی سب سے پہلی شخصیت بیدار مرجع اور عزم پیہم رکھنے والے مجاہد آیت اللہ شیخ جعفر کاشف الغطا کی تھی ۔ آپ نے نجف پر وہابیوںکے حملہ کے وقت علاقہ کے کچھ علماء اور لوگوں کی مدد سے وہابیوں سے جنگ بھی کی ۔ آیت اللہ شیخ جعفر نے ۱۲۱۵ھ میں کہ جب روس نے ایران کے کچھ حصوں پر ناجائز قبضہ کیا تو دراندازوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ بھی صادر کیا اور فتح علی قاچار کو اجازت دی کہ آپ کی طرف سے لوگوں کو فوج کی جانب سے جنگ کے لئے بلائے ۔
اسی طرح آیت اللہ شیخ علی کاشف الغطاء ( مورد گفتگو شخصیت کے والد ماجد) نجف کے ایک اور بیدار مجتہدوں میں تھے جنہیں رسمی طور پر قاہرہ میں تحقیقات اسلامی کی دوسری کانفرنس میں دعوت دی گئی ۔ اس کانفرنس میں آپ کی تقریر کاموضوع فلسطین کا مسئلہ تھا اسی فرصت سے استفادکرتے ہوئے کہ یہ کانفرنس شہادت امام حسینؑ اور روز عاشور سے مصادف تھی آپ نے قاہرہ میں تقریر کی اور یہ تقریر صوت العرب ( عرب کی آواز)ریڈیو سے نشر ہوئی ۔ عاشور اور کربلا کے بارے میں اس عالم تشیع کے مایہ ناز مرجع کی تقریر کا نشر ہونا مصر میں مذہب شیعہ کی بے انتہا تاثیر کا سبب بنا ا س قدر کے ایوبییوں کی حکومت کے بعد سے اس وقت تک ایسی تاثیر کا سابقہ نہیں تھا ۔
اس خاندان کے دیگر افرادکا تفصیلی تعارف نظرانداز کرتے ہوئے فی الحال ہم کاشف الغطاء کی شخصیت اور انکی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں ۔
محمد حسین بن علی آل کاشف الغطاء (۱۲۹۴۔۱۳۷۳ھ:
آپ فقیہ ، اصولی ،ادیب ،محدث ، مصنف ،خطیب ، شاعر اور آل کاشف الغطا جیسے مجاہد علماء میں سے ایک ہیں ۱۹۲۴ھ نجف میں پیدا ہوئے ۔ مقدماتی علوم ،ادبیات علم الاشکال ،ریاضی و اقلیدس کو سیکھنے کے بعد فقہ و اصول کے خارج کو سید کاظم یزدی اور شیخ آقا رضا اصفہانی و آخوند خراسانی سے پڑھا ،علم کلام کو میرزا باقر اصطہباناتی (۱۳۲۶ھ و شیخ احمد شیرازی اور شیخ محمد رضا نجف آبادی سے، علم حدیث کو حاج میرزا حسین نوری سے سیکھا خود بھی ولا مقام فقہا اور علماء میں قرار پائے ۔ دوران جوانی میں حکمت ،فلسفہ اور عرفان کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنی معلومات کی قلمرو میں وسعت بخشی آپ خود اس بارے میں کہتے ہیں ’’ میں نے صدر المتالھین ملا صدرا کی تمام کتابوں کو مشاعر، عرشیہ اور شرح ہدایہ سے لیکر اسفارنیز شرح اصول کافی کو ماہر اساتید سے پڑھا ‘‘
اسی طرح آپ نے مولوی ، جامی اور دیگر فارسی شعرا کا بھی مطالعہ کیا فارسی زبان سے آپ کی آشنائی سبب بنی کہ فارس کے عرفانی اشعار سے مانوس ہو جائیں لیکن اس کے باجود آپنے کبھی بھی عرب شعراء کے کلام سے غفلت نہ برتی ۔ آپ ذوق شعری بھی رکھتے تھے نوجوانی کے زمانے میں اشعار بھی کہتے تھے ۔۱۸؍ سال کی عمر میں آخوند خراسانی اور سید کاظم یزدی کے دروس میں شرکت کی اس طرح کہ دونوں شخصیات کے درس میں آنے والے سب سے جوان شاگردوں میں شمار ہوتے تھے ۲۰ ؍سال حصول علم کے بعد نقطہ اوج کوپہونچے اس کے بعد تدریس کے ذریعہ اپنی معلومات کو اپنے شاگروں تک منتقل کیا ۔
آپ کے درس میں جو کہ عموما نجف کی مسجد ہندی اور میرزای شیرازی کی آرامگاہ پرمنعقد ہوتا تھا خاصی تعداد میں علماء اور طلاب شرکت کرتے تھے ۔ آہستہ آہستہ آپکی علمی شہرت کا دائرہ پھیلنے لگا اور ایک توانا مجتہد کے عنوان سے حوزہ ٔعلمیہ نجف میں سامنے آئے ۔
آپ کی تقلید کے سلسلہ میں لوگوں کا اصرار اس بات کا باعث بنا کہ آپ نے اپنے فتاوی کو آیت اللہ سید محمد کاظم یزدی کے فتاوی کے ذیل میں چاپ کیا ۔ کتاب عروۃ الوثقی پر لکھی گئی سیکڑوں شرحوں میں اس کتاب پر آپکی شرح سب سے پہلی شرح شمار ہوتی ہے۔
آپ پر سید محمد کاظم یزدی کی نظر خاص تھی اور سید بہت سارے علمی اور فقہی سوالات کو آپ پر چھوڑ دیتے تھے کہ انکا جواب آپ دیں اپنے بھائی شیخ احمد ( متوفی ۱۳۴۴ ھ) کی درگزشت کے بعد آیۃ اللہ سید ابولحسن اصفہانی کی مرجعیت عام کے باوجود آپ مرجعیت کے عظیم مقام تک پونچے ہندوستان ، ایران ، قطیف، افغانستان ، مسقط، اور کچھ عراقی قبایل کے افراد آپ کی تقلید کرتے تھے ۔
کاشف الغطاء کے فقہی نظریات :
کاشف الغطا ء نے مجلۃ العدل نامی کتاب کے مطالعہ اور تجزیہ کے دوران کہ جو سلطنت عثمانی کا مدنی قانون شمار ہوتی تھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کتاب در اصل فقہی فتاوی پر مشتمل ہے لیکن حقوقی اور تعزیری مواد کے قالب میں تنظیم پائی ہے۔لہذا آپ نے فیصلہ کیا کہ ایک کتاب اسی روش پر لکھیں اس بارے میں آپ فرماتے ہیں :
’’میں نے اس کتاب کا جو ترکوں (سلطنت عثمانی ) کے زمانہ سے اب تک کے قانونی محکموں اور اداروں کے واحد قانونی متن کی حیثیت رکھتی تھی جائزہ لیا اور اس کے لئے صحیح کو ضروری جانا جیسا کہ اس کتاب کے طرزتحریر سے ہی معلوم ہے اس کا قانونی پہلو بارز حیثیت رکھتا ہے اور اس کو برتری حاصل ہے ۔اس کتاب کو فقہ قانونی یا قانون فقہی کا نام دیا جا سکتا ہے چنانچہ آپ نے تحریر المجلہ نامہ کتاب لکھ کر اس کتاب پر تنقید کی اور فقہ شیعہ کا قانونی ، تعزیری اور مدنی صورت میں تعارف کرایا یہ کتاب کہ جو مجموعی طور پر ۵ جلدوں میں چاپ ہوئی ا قانون دانوں ، وکیلوں قاضیوں اور عدالت کے کارندوں اور اہل کاروں کی طرف سے مورد استقبال قرار پائی ۔
شیخ محمد حسین کی زیادہ تر فقہی جولانیاں اس مبنیٰ پر استوار تھیں کہ انکے تمام نظریات اور فتاویٰ زمان و مکان کے تقاضوں اور اسکے شرائیط سے مطابقت رکھتے ہوں آپ اجتہاد میں زمان و مکان کے رول کے اور اس سلسلہ میں فقیہ کی توجہ کے بارے میں فرماتے ہیں : آیا ایک چھوٹے سے محلہ میں چند مساجد کی تعمیر کاصحیح کام ہے ؟ کیا یہ کام اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ لوگ مختلف جگہ بکھر جائیں اور مسجدیں خالی نظر آئیں حتی بعض مساجد میں تالے پڑ جائیں ؟ کیا اس صورت میں بھی مساجد کی تعمیر ثواب کی حامل ہے ؟
اس سلسلہ میں آپ نے مراجع تقلید سے یہ درخواست کی کہ عوام کی اس سلسلہ میں راہنمائی کریں اور لوگوں سے بھی درخواست کی مدرسہ ، ہسپتال اور دیگر عام المنفعہ اماکن(رفاہ عام کی جگہوں) کی تعمیرمیں حصہ لیں ۔
کاشف الغطاء فقیہ کے اختیارات کے بارے میں فرماتے ہیں :
فقیہ لوگوں کے تمام ان کاموں پر ولایت رکھتا ہے جو سلامی سماج اور اسلامی نظام کے لئے ضروری ہیں ولایت فقیہ کا دائرہ تمام ان موارد کو شامل ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے قلمرو میں آتے ہیں ۔
امام خمینی (رہ) ولایت فقیہ اور کاشف الغطاء کے اس سلسلہ میں عقیدہ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ جو ولایت پیغمبروں اور ائمہ علیھم السلام کے لئے ہے وہی فقیہ کے لئے بھی ثابت ہے ولایت فقیہ کا موضوع کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جسے ہم نے پیش کیا ہو بلکہ یہ مسئلہ ابتداء سے بحث کا موضوع رہاہے ۔ مرحوم کاشف الغطاء نے بھی اس بارے میں بہت سے مطالب کو بیان فرما دیاہے ‘‘
کاشف الغطاء فقیہ کو طبیعی ذخائر اور انفال میں واحد فیصلہ کا حق رکھنے مرجع سمجھتے تھے اسی طرح آپ جدید پیش آنے والے مسائل میں دوسروں سے جلدی فتوی دیتے تھے ۔ جعفر خلیلی، عراق کے مشہور صحافی اور مصنف کہتے ہیں :’’ میں نے آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کی رحلت کی مناسبت سے ایک تقریر میں کہا ’’ سید ابولحسن اصفہانی وہ پہلے مجتہد تھے کہ جنہوں نے حکم دیا کہ وہ عورت جس کے شوہر کور ۵ سال جیل کی سزا سنائی گئی ہے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے خلیلی کہتے ہیں ’’ میں نے ان سے پوچھا آپکے حکم کی فقہی دلیل کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا مجتہد قانون گزاری کا حق رکھتا ہے ۔
آپ کے وحدت آفریں سفر :
شیخ محمد حسین دینی اور سیاسی معلومات کے حامل تھے ۔ آپ گزشتہ امتوں کے نظریات سے بھی واقف تھے ور اپنے عصر کے حکام اور موجودہ سیاست کو بھی جانتے تھے آپ اسلام کی معاصر صدی کے مصلحوں میں ہیں۔ اگرچہ آپ اسلامی بیداری کے ہراول دستہ کی ابتدائی تحریک میں شامل سید جمال الدین اسد آبادی اور شیخ محمد عبدہ اور اس تحریک میں شامل دیگر افراد سے متاثر تھے لیکن آپکے فکری عمق اور عصری مسائل اور سیاست سے آپ کی واقفیت، لہجہ کی صراحت ،اور عملی شجاعت کے ساتھ فقہی مقام اور دینی مرجعیت نے آپ کو ایک برجستہ خصوصیت عطا کی اور آپ کی اصلاحی تعلمیات کو کارساز بنا کر پیش کیا ۔
چنانچہ اس حالت میں بھی کہ جب آپ ایک عالم دین کے فرائض کو انجام دے رہے ہوتے تھے اپنے وقت کے سیاسی اجتماعی مسائل اور مسلمانوں کو صہیونیت اور امپریالیسم سے جنگ کرنے کی ضرورت سے آگاہ کرنے میں بھی صرف کرتے تھے ۔
آپ کے مختلف اسلامی ممالک کے سفر امت اسلامی کی بیداری کا ایک عملی شیوہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے امور کی رسائی کے سلسلہ میں آپ کے خاص اہتمام کا ایک حصہ تھے پہلی مرتبہ ۱۳۲۸ھ میں سنی دانشوروں سے گفتگو کے خیال اور شیعہ سنی اتحاد قائم کرنے کے سلسلہ میں حجاز کا سفر کیا ’’نزھۃ السمرہ و نزھۃ السفر‘‘ کتاب آپ کے حج کا سفر نامہ ہے اس کے بعد دمشق گئے وہاں پر سنی علماء سے جہان اسلام کی مشکلات اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر گفتگو کی اس کے بعد بیروت کا سفر کیا وہاں پر دو مہینہ رہے اور اس شہر کے علماء کے دیدار کے دوران وہاں پر اپنے بعض آثار چاپ کرنے میں کامیاب رہے اسی طرح سے انھوں نے صیدا کا سفر کیا او ر اس شہر میں تین مہینے کے قیام کے دوران سنی علماء جیسے شیخ سلیم بشری و شیخ محمد نجیب مطیعی( مفتی حقانیہ ) سے ملاقات و گفتگو کی آپ نے لبنان چھوڑنے سے پہلے وہاں شادی کی اس کے بعد مصر کی طرف عازم ہوئے اس ملک میںاہلسنت علماء سے گفتگو کی اور الازھر یونیورسٹی کے طالب علموں سے ساتھ جلسہ درس تشکیل دیا ، قاھرہ کے چند کلیساوٗں میں تقریر کی اورعیسائیت کے سلسلے میں اپنے عقائدکو’’التوضیح فی بیان ماھو الاانجیل و من ھو المسیح‘‘ دو جلدی کتاب میں لکھا اور حضرت عیسی ؑو انجیل کے چہرہ پر پڑی خرافات کو دور کیا ۔
کاشف الغطاء نے ۱۳۳۱ھ کے ماہ صفر کے اآخری ایام میں مصر چھوڑنے اور عراق واپس آنے کا ارادہ کیا لیکن شیخ محمد نجیب نے درخواست کی کہ اپنے سفرملتوی کر دیں اور ربیع لاول کے مہینے میں ولادت حضرت محمد(ص)کی مناسبت سے مصرمیں ہونے والے جشن میں شرکت کریںآپ نے بھی اسے قبول کر لیا آپکے تین سال کے سفرپر محیط یہ عرصہ ۱۳۳۲ ؍میں پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر اختتام پذیر ہوا۔برطانیہ نے عراق کے بہت سے شہر وں پر قبضہ کر لیا تھا اسی وجہ سے عراق واپس آئے اومحاذ جنگ کے پہلے خط (Freuntline ) پر پہونچ گئے اوبرطانیہ کے متجاوز فوجیوں سے جنگ کی ۔
فلسطین کی اسلامی کانفرنس میں شرکت :
نجف میں سالوں سال قیام کے بعد ۱۳۵۰ھ کو ا پنے ایک اور سفر میں اسلامی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے فلسطین گئے ۔اس کانفرنس میں جو پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کی مناسبت سے علماء کی موجودگی میں بیت المقدس میں منعقد ہوئی ،سید حبیب عبیدی ، (موصل کے مفتی) سید محمد زیارہ (یمن) رشید رضا (شاگرد سید جمال الدین اسدآبادی اور تفسیر المنار کے مصنف) علامہ اقبال لاہوری جیسی شخصیات بھی حاضر تھیں ۔ آپ نے جوکہ عراقی علماء کے وفد کے ساتھ اس کانفرنس میں حاضر ہوئے تھے مسجد الاقصی میں نماز پڑھی اور ہزاروں مسلمانوں نے جن میں کانفرنس کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اراکین و مندوبین بھی شامل تھے آپکی اقتدا کی ۔
آپ نے اس کانفرنس کے بارہویں جلسہ میں ایک اثر انگیز تقریر کی جسے کانفرنس اور جہان اسلام میں مثبت پذیرائی ملی ۔
آپ نے گزشتہ مسلمانوں کے حالات، مسلمانوں کی موجودہ دور کی زبوں حالی انکے انحطاطااور ان کے درمیان اتحاد کی ضرورت اور اختلافات سے پرہیز کے سلسلہ میں تقریر کی
یہ تقریر پہلے قدس میں اسکے بعد دیگر اسلامی ممالک کے روزناموں اور اخبارات کی زینت بنی ۔ بیروت کے فاروق اول کالج کے ایک استاد نے اپنی ’’کتاب الاسلام بین السنہ والشیعہ ‘‘میں آپ کی گفتگو کی تاثیر کے بارے میں لکھا : ’’اگر اس نئی حرکت کی برکات نہ ہوتیں تو کیا کسی کے لئے یہ تصور کرنا ممکن تھا کہ اہلسنت کے مختلف د ھڑے کاشف الغطاء کی اقتدا کریں ؟
کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ انکی کتاب ’’ا لدعوۃ الاسلامیہ ‘‘ کو اس سے قبل کہ شیعہ دانشور حضرات پڑھیں اہلسنت کے ہاتھوں میں ہو ؟ کاشف الغطا ۱۵ ؍ دن فلسطین میں رہے اور انہوں نے کانفرنس میں موجود سنی شیعہ دانشوروں سے ملاقات کی انہوں نے فلسطین کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور وہاں کے علماء اور عوام سے ملاقات کی ان کو وحدت و اتحاد کی دعوت دی ۔ آپ نے اس طرح لوگوں کے قلوب کو تسخیر کر لیا تھا کہ آپ کے بعد آپکو امام کاشف الغطا کہا گیا ‘‘۔
جی ہاں ! کاشف الغطاء کی ہیجان انگیز تقریر اس طرح علماء اور عوام کے درمیان مورد استقبال قرار پائی کہ آپ دلوں کے محبوب بن گئے کانفرنس میں حاضر دانشوروں نے آپ کی تقریر کے بعد سے جب تک آپ فلسطین میں رہے نماز جماعت اور جمعہ کو آپ ہی کی اقتدا میں پڑھا ۔ حتی وہابی ، ناصبی اور خارجی علماء بھی آپ کی اقتدا کرتے تھے ۔ آپ نے اسی سفر کے دوران (جو ۱۵ دن تک جاری رہا) فلسطین کے دیگر شہروں جیسے حیفا ، نابلس، یافا، کا دورہ کیا سفر سے واپسی پر عراق کے لوگوں نے آپکا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا ۔
آپ نے مسلمانوں کے سیلاب میں کہ جو بیت المقدس کی آپ کی تقریر سے وجد میں آ گئے تھے مسجد کوفہ میں ایک تفصیلی تقریر کی یہ تقریر آپ کے تاریخی خطبوں میں شمار ہوتی ہے ۔ آپ نے اپنی اس تقریر میں اسلامی کی دیرینہ عظمت کی یاد دہانی کرائی اور مسلمانوں کی پسماندگی کے سلسلہ میں کچھ باتیں بیان کیں ۔
آپ نے عراق میں دو سال قیام کے بعد ۱۳۵۲ھ میں پہلی بار ایران کا سفر کیا اور حضرت ثامن الائمہ امام رضاؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ آپ نے ایران کے اکثر شہروں جیسے کرمانشاہ ، ہمدان ، قم ، تہران ، شاہرود، مشہد، شیراز، خرمشہر ، آبادان، بوشہر کا دورہ کیا اور ہر جگہ لوگوں سے فارسی میں گفتگو کی اور انہیں بیداری اور استعمار سے مقابلہ اور جہاد کی دعوت دی ۔ قم میں آپ بانی حوزہ علمیہ قم آیۃ اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کے مہمان ہوئے آیت اللہ حائری نے آ پ سے چاہا کہ انکی جگہ حرم معصومہ میں امام جماعت کے فرائض کو ادا کریں آپ نے اس بات کو قبول کر لیا اور نماز جماعت کے اختتام پر آپ نے تقریر کی ۔ اس سفر کے بعدکہ جو تقریبا ۸ ؍ مہینہ جاری رہابصرہ کے راستہ سے عراق واپس ہوئے ۔ لیکن اسکے بعد بھی ۱۳۶۶ھ اور تیسری بار ۱۳۶۹ھ ،میں ایران کا سفر کیا جو بہت ساری برکتوں کا باعث ہوا ۔
پاکستان کی اسلامی کانفرنس میں شرکت:
جماعت اخوت اسلامی نے پاکستان میں ۱۳۷۱ھ کو دوسری اسلامی کانفرنس منعقد کی اور کاشف الغطاء سے اس کانفرنس میں شرکت اور تقریرر کی درخواست کی اس کانفرنس میں آپکی تقریر کا ایک حصہ یہ ہے ’’ میں نے بیس سال پہلے ایک جملہ کہا تھا جو ہر جگہ معروف ہوا ۔ میں نے کہا اسلام دو بنیادوں پر استوار ہے کلہ توحید اور توحید کلمہ اسلام یکتا پرستی اور قانون کے سامنے تمام لوگوں کے برابر ہونے کا آئین ہے ۔ ابھی ہجری کی پہلی صدی ختم نہیں ہوئی تھی کہ مختلف مذاہب وجود میں آ گئے سب سے پہلا فتنہ جو دین کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گیا خوارج کا تھا ، دین کے اصول و فروع میں اختلافات سامنے آنے لگے بادشاہوں اور سلاطین نے اختلافات کو اور ہوا دی ۔استعمار نے فرصت کو غنیمت جانا اور حد شکنی کا آغاز کر دیا مسلم ممالک انکے چنگل میں آگئے پاکستان کی تازہ حکومت اسلام کے نام پر وجود میں آئی پاکستان اسلام کا فرزند ہے ااس کا بنیادی دی قومی دستو ر العمل بھی قرآن اور سنت کی بنیاد پر ہونا چاہیے ،۔
پاکستان کی حکومت ہندوستان سے اسلام کے نام پر علیحدہ ہوئی اسی لئے میں نے فتوی دیا کہ پاکستان کی حکومت کی مدد کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے ہم خود کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن ہماری تاریخ عیسائی اور زرتشتی تاریخ ہے اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے ائے مسلمانو!
اپنی تمام طاقت کو یکجا کرو اس لئے کہ عالمی سیاست نے اسلامی اور عربی ممالک پر یلغار کی ہوئی ہے ابھی ایرانی حکومت خدا اس کی مدد کرے (مراد مصدق کی حکومت ہے ) ابھی ااس گندی سیاست کے چنگل اور اسکے ذریعہ ڈسے جانے سے نہیں نکل پائی ہے اور یہ اس وقت تک ہو بھی نہیں سکتا جب تک تمام لوگ ایک دوسرا کا ہاتھ تھام کر ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ کاشف الغطا ۴۰ دن پاکستان میں رہے اور اس دوران لاہور، راولپنڈی ، کشمیر(مظفرآباد) اور پشاور کے لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کی اور انہیں وحدت و اتحاد کی دعوت دی ۔
آپکے اصلاحی نظریات اور فکری تحریکیں :
شیخ محمدحسین کے آثار میں مسلمانوں کے گزشتہ مفاخر اور انکے قدیمی تمدن کی یاد آوری کی گئی ہے اور دوران گزشتہ کی ترقی کے رازوں اور آخری دہائیوں میں امت اسلامی کے انحطاط کی وضاحت کی گئی ہے آپ کا نظریہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ حالت سے نجات کا پہلا قدم حقیقی ایمان اور صدر ااسلام کی خالص تعلیمات کی طرف انکی بازگشت ہے ۔ اسی بنا پر آپکی تحریروں اور تقریروں میںمسلمان فرقوں کے ما بین اتحاد و ہم دلی کی دعوت بہت زیادہ نظر آتی ہے ان تمام باتوں کے باوجود آپ بھی دیگر وحدت اسلامی کے منادیوں کی طرح اس سلسلہ میں کوئی واضح تفسیر یا تعریف بیان نہیں کرتے ہیں ، لیکن یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان آپکی دعوت کا مثبت جواب دیں ۔
آپ یہاں تک اسلامی اتحاد کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں کہ صلیبی جنگوں ، مغولوں کے سلطنت اسلامی پر حملہ اور مغربی استعمار کے جہان اسلام میں نفوذ کی علت مسلمانوں کے درمیان خود اعتمادی کے فقدان کو بیان کرتے ہیں ۔
اسی بنا پر آکی شیعت کے دفاع کی کوشش (اصل الشیعہ و اصولھا کی تالیف کے ذریعہ ) اور شیعت کا تعارف دونوں مذاہب کے درمیان بد گمانی کے غبار کو ختم کرنے اور ۲ بڑے اسلامی مذاہب کے درمیان قربت پیدا کی خاطر تھا یہی وجہ تھی کہ دونوں ہی فرقوں کے علماء آپکو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور کبھی کبھی قدس کانفرنس کی طرح وہابی علماء بھی آپکے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔
آپکی اصلاحی طرز فکر کی ایک اور علامت استعمار اور صہیونیت سے مقابلہ کے لئے لوگوں کو دعوت دینا ہے ۔شیخ محمد حسین شہنشاہیت پرستی (Imoerialism) کی حقیقت کو اپنے زمانے میں پہچان چکے تھے اس سلسلہ میں انکی آگاہی اور باخبری کا ندازہ امریکی کانفرنس ’’بحمدون کو دئے گئے جواب سے لگایا جا سکتا ہے ۔
۱۳۷۳ھ دس رجب ’’مشرق وسطی کے دوستداروں نامی انجمن ‘‘کے نائب رئیس گارلنڈیوینز ہیپیکنز نے شیخ محمد حسین کو ایک خط لکھا اور ان سے درخواست کی اس کانفرنس میں کہ جو الحاد اور مادیت سے مقابلہ کے لئے اسلام اور مسیحت کے ایک دوسرے کے تعاون اور مشترکہ طور پر راہ حل کے تلاش کرنے کے سلسلہ میں دونوں ادیان کے کچھ دینی رہنمائوں کی اس کانفرنس میں شمولیت کے بعد ۱۸ شعبان کو اسی سال لبان کے شہر بحمدوں میں منعقد ہوگی شرکت کریں تو آپنے اس درخواست کو قبول نہ کرتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی علت ایک تفصیلی خط میںتحریر کی اور خط امریکہ بھیج دیا کہ جو بعد میں المثل العلیا نامی کتاب کی صورت میں سامنے آئی آپ باوجود اسکے کہ مسلمانوں کو صدر اسلام کے ایمان کے احیاء کرنے کے سلسلہ میں ہمیشہ دعوت دیتے رہے اور مغربی استعمار سے مقابلہ کے لئے اس امر کو ضروری سمجھتے رہے اس بات پر بھی توجہ رکھتے تھے کہ قدیمی رجعت پسندی اور جدید استعمار سے نجات کا ایک راستہ اقتصادی توسیع اور جدید علوم و فنون میں مہارت ہے ۔
مسجد جامع کوفہ میں فلسطین کانفرنس کے بعد اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :
’’مغرب مشرق کا مالک نہیں بنا مگر صنعت کے ذریعہ اور اور ثروت کے چشموں کوچوسنے کی بنا پر ہمارے دین نے تمام مفادات کو جو ثروت کے لئے مفید ہیں بیان کر دیا ہے اور اقتصادی برتری اور رشد اکو ہمارے گوش گزار کر دیا ہے ۔‘‘
دوران ضعیفی اور انتقال :
شیخ محمد حسین اپنی زندگی کے آخری لمحات تک مسلمانوں کو وحدت اور اتحاد کی دعوت دیتے رہے آپ ۷۹ سال کی عمر میںبغداد کے کرخ ہسپتال میں بھرتی ہوئے انہیں ایام میں بحرین کے مختلف طائفوں اور قبایل ( طاہر شیعہ سنی )کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے ۔ جب اس بات کی خبر آپ تک پہونچی تو اسپتال سے ہی بحرین کے مسلمانوں کے لئے ایک پیغام بھیجا اور ان سے اپنے جھگڑوں کو ختم کرنے کو کہا اس پیام کے ایک حصہ میں آیا ہے کہ صہیونی آپس میںمتحد ہیں لیکن مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہیں اگر ایک صہیونی عراق میں بیمار ہو جائے تو دوسرا چین میں اسکی خاطر محزون ہوتا ہے جان لو کہ ا سلام کے دشمن شیعہ اور سنی کے درمیان جنگ کے شعلہ بھڑکانا چاہتے ہیں ۔
آپ اس پیام کے ذریعہ کہ جس میں محبت اور روادای کے اوپر تاکیدکی گئی تھی بحرین کے آشوب اور جھگڑے کو ختم کرانے میں کامیاب رہے ۔کاشف الغطاء ایک ماہ کے قریب ہسپتال میں بھرتی تھے پھر ڈاکٹروں کے اچھی آب و ہوا والے کسی علاقہ میں جانے کے مشورہ کی بنا پر کرمانشا ہ اور خانقین کے درمیان ایک دیہات میں منتقل ہوئے اور آخر انجام ۱۵ ؍ ذی قعدہ ۱۳۷۳ھ کو کرند نامی کرمانشاہ کے علاقہ میں نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب سے قبل آپکی زندگی کا سورج غروب ہو گیا ۔ آپ کا مطہر جنازہ کرند کے عوام کی تشیع جنازہ کے ساتھ نجف منتقل ہو گیا اور قبرستان واد السلام میں آپکو سپرد خاک کیا گیا ۔ آپکی روح ہمیشہ شاد رہے اور راستہ ہمیشہ راہیان حق سے آباد ۔
حواشی ومصادر :
(۱)دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی جلد ۲ ص ۱۰۰ ،و امین عاملی ، اعیان الشیعہ ، جلد ۴، ص ۹۹ شمارہ ۳۰۰ بیروت ۱۴۰۷ ھ اس اثر میں دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی سے کافی استفادہ کیا گیا ہے ۔
(۲)امین عاملی وہی مدرک جلد ۴ ص ۱۰۰
(۳) وہی مدرک ، جلد ۱۰، ص ۱۷۸ ،شمارہ ۵۹۵)
(۴)محمد حرز الدین ، معارف الرجال ، قم (،۱۴۰۵ ،جلد ۱ ص ۲۱۵ و ۲۱۶۔
(۵)وہی مدرک جلد ۳ ، ص ۹۷۔
(۶)وہی مدرک جلد ۲ ص ۳۵۶،۳۵۸
(۷)وہی مدرک ص ۲۸۳و ۲۸۴
(۸)وہی مدرک جلد ۳، ص ۵۲
(۹)آقا بزرگ تہرانی ، طبقات اعلام الشیعہ ، جلد ۱۳۔
(۱۰)حرزالدین معارف الرجال قم جلد ۲ ص ۴۰۸)
(۱۱)امین عاملی ، اعیان الشیعہ جلد ۱۰، ص ۲۳۱، و آقا بزرگ تہرانی ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ جلد ۱ ص ۳۰۳