تحریر: آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی مدظلہ العالی
مترجم: منہال حسین خیرآبادی
مخالفین نے جس مسئلے کو سب سے زیادہ حربہ کے طور پر استعمال کیا ہے وہ ’’ تقیہ‘‘ ہے، وہ لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگ کیوں تقیہ کرتے ہیں؟ کیا تقیہ ایک قسم کا نفاق نہیں ہے؟ وہ لوگ اس مسئلہ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں کہ گویا تقیہ ایک حرام فعل اور گناہان کبیرہ میں سے ہے۔
جب کہ قرآن نے متعدد مقامات پر بعض شرائط کے تحت تقیہ کے جواز کو بیان کیا ہے اور خود ان کی کتابوں میں وارد ہونے والی روایتیں اسی مطلب کی تائید بھی کرتی ہیں، نیز عقل بھی ان شرائط کے ساتھ تقیہ کو قبول کرتی ہے، اس کے علا وہ وہ لوگ خود بھی اپنی شخصی زندگی میں متعدد مقامات پر تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔
اس مطلب کی وضاحت کے لئے چند نکات کی طرف توجہ لازمی ہے:
۱۔ تقیہ کیا ہے؟
تقیہ یعنی ایک انسان اپنے کڑ اور متعصب دشمنوں کی اذیتوں سے بچنے کے لئے اپنے عقیدہ کا اظہار کرے۔
بعنوان مثال: اگر ایک مسلمان چند متعصب ہندؤں کے درمیان گرفتار ہوجائے اور اسے اس بات کا ڈر ہو کہ اگر اس نے اپنے عقیدہ کا اظہار کر دیا تو وہ لوگ اسے مار ڈالیں گے، یا اس اموال کو برباد یا کوئی بہت بڑا نقصان پہنچائیں گے تو وہ کبھی بھی اپنے باطنی عقیدہ کا اظہار نہیں کر سکتاتا کہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکے۔
یا جب ایک شیعہ مسلمان ایک سنسان جگہ پر ایک متعصب وہابی کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتا ہے جو اس کے خون کو بہانا مباح سمجھتا ہے تو وہ اپنی جان، مال اور ناموس کو بچانے کے لئے اپنے عقیدہ کے اظہار سے پرہیز کرتا ہے۔
ان حالات کو دیکھ کر ہر عاقل اس عمل کو منطقی کہے گا اور عقل اس پر حاکم رہے گی اس لئے کہ متعصبوں کے تعصبات کے مقابلہ میں جان دینا صحیح نہیں ہے۔
۲۔ تقیہ اور نفاق میں فرق
نفاق تقیہ کی ضد ہے، منافق اسے کہتے ہیں جو دل میں اسلامی تعلیمات کو نہیں مانتا یا اسلام کے متعلق مردد ہے اور مسلمانوں کے درمیان اسلام کا اظہار کرتا ہے لیکن تقیہ یہ ہے کہ انسان دل میں صحیح اعتقاد رکھتا ہو لیکن اسے وہابی حضرات ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں اس لئے وہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور ان کو ہمیشہ دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، جب بھی ایک با ایمان شخص ایسے متعصب وہابیوں کے نزدیک اپنی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کی خاطر اپنے عقیدہ کا اظہار نہ کرے تو وہ تقیہ اور اس کی ضد نفاق ہے۔
۳۔ تقیہ عقل کے میزان پر
تقیہ حقیقت میں ایک دفاعی سپر ہے اسی وجہ سے روایات میں اسے ’’ تُرس المومن‘‘ یعنی مومن کی سپر سے تعریف کی گئی ہے۔
کوئی بھی عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک انسان چند متعصب اور جاہل افراد کے سامنے اپنے عقیدہ کا اظہار کرے اور اپنی جان ومال اور ناموس کو خطرے میں ڈال دے، اس لئے کہ جان ومال کو کسی فائدے کے بغیر دینا عاقلا نہ عمل نہیں ہے۔
’’تقیہ‘‘ میدان جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کی طرح ہے جو جنگ کے میدان میں اپنے آپ کو درختوں، سرنگوں اور جھاڑیوں کے درمیان چھپا لیتے ہیں اور اپنے آپ کو درخت کی شاخوں اور اسکی پتیوں سے ڈھانپ لیتے ہیں تا کہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ ہونے پائیں دنیا میں جینے والے تمام عقلمند حضرات اپنے جانی دشمنوں سے بچنے کے لئے تقیہ پر عمل کرتے ہیں اور ااج تک کسی عقلمند نے اس روش کی تقبیح نہیں کی ہے، اس دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو تقیہ کو اسکی شرطوں کے ساتھ قبول نہ کرے۔
۴۔ تقیہ کتاب خدا میں
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر دشمنوں کے مقابلہ میں تقیہ کو جائز قرار دیا ہے بعنوان مثال ملاحظہ کریں:
الف) مومن آل فرعون کی داستان میں آیا ہے:
’’ وَقَالَ رَجُلْ مُّؤْ مِنْ مِّنْ آلِ فِرْ عَوْنَ یَکْتُمُ إِ یمَانَہُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن یَقُولَ رَبِّییَ اللہُ وَقَدْ جَاء کُم بِالقبَیِّنَاتِ۔۔‘‘ (سورہ غافر آیت نمبر ۲۸)
اورآل فرعون کے مرد مومن کہ جس نے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا: کہ کیا تم اس شخص کو قتل کرو گے کہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے جب کہ اس کے پاس واضح دلیلیں ہیں۔
اس کے بعد فرماتاہے: ’’ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کہ اگر اس نے جھوٹ کہا ہے تو یہ جھوٹ اس کا دامن گیر ہو جائےگا اور اگر سچ کہہ رہا ہے تو پھر اس بات کا امکان ہے کہ جس عذاب سے وہ ڈرا رہا ہے وہ تمہارا دامن گیر ہو جائے۔
اس طرح مومن آل فرعون نے تقیہ کرتے ہوئے متعصب قوم کو نصیحت کی جس نے خدا کے رسول موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ب) ایک دوسرے مقام پر قرآن واضح فیصلہ سناتے ہوئے فرماتا ہے:
’’لا یَتَخِذْ الْمُؤْ مِنُونَ الْکَا فِرِینَ أَ وْلِیَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْ مِنِینَ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنْ اللہَ فِی شَیْ ءٍ إِ لا أَ نْ تَتَقُو امِنْہُمْ تُقَاۃً۔۔۔۔‘‘
کسی بھی مومن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مومنین کے سوا کافروں کو دلی بنائے اور جو ایسا کرے گا تو وہ خدا سے بیگانہ ہے، مگر یہ کہ اس نے تقیہ سے کام لیاہو۔ (سورہ آل عمران، آیت نمبر ۲۸)
اس آیت نے قطعی طور پر خدا کے دشمنوں سے دوستی کو منع کر دیا ہے مگر یہ کہ ان کی دوستی کو ترک کرنے سے مسلمانوں کو آزار واذیت پہنچنے کا ڈر ہوتو پھر وہ ان کی دوستی کو سپر بنا کر تقیہ کیا جا سکتا ہے۔
اج) جناب عمار اور آپ کے والدین کی داستان کو تمام مفسروں نے لکھا ہے جو مشرکین عرب کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے تھے جنہیں ان لوگوں نے پیغمبرؐ سے برأت کےلئے کہا، جناب عمار کے والدین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجہ میں انہیں شہید کر دیا گیا لیکن جناب عمار نے تقیہ کرتے ہوئے ان کی کہی مان لی اور پھر روتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی:’’ مَن کَفَرَ بِاللہِ بَعدِ اِیمَا نِہِ اِلًا مَن اکرِہَوَ قَلبُہٗ مُطمَئِنّْ بِالِایمَانِ۔۔۔‘‘ وہ لوگ کہ جوایمان کے بعد کافر ہو گئے۔۔۔ تو ان کے لئے سخت عذاب مہیا ہے مگر وہ لوگ کہ جسے مجبور کر دیاگیا ہو۔۔۔۔ (سورہ نحل، آیت نمبر ۱۰۶)
مذکورہ آیت کے سلسلےمیں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت جناب عمار ور ان کے والدین کی شان میں نازل ہوئی ہے اور فرمان رسولؐ پر ایمان لانا اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ کو ہر ایک نے ماناہے، کیا واقعا مقام تعجب نہیں ہے کہ ایسے قرآنی اسناد اور اہل سنت کے مفسروں کے کلمات کے باوجود شیعوں کے تقیہ کو تقیہ قبول کرنے کی وجہہ سے برا بھلا کہا جائے؟
ہاں! نہ تو عمارمنافق تھے اور نہ ہی مومن آل فرعون بلکہ انہوں نے فرمان خدا سے فائدہ اٹھایا تھا۔
۵۔ تقیہ اسلامی روایات میں:
اسلامی منابع میں تقیہ کے سلسلے میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں:
مسندابی شیبۃ جواہل سنت کی مشہور مسانید میں سے ہے، اس میں ’’ مسلیمہ کذاب ‘‘ کی داستان نقل ہوئی ہے کہ جب اس کے پاس دو مسلمان گرفتار کرکے لائے گئے تو ان سے سوال کیا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں؟ تو ان میں سے ایک نے گواہی دی اور بچ گیا لیکن دوسرے نے گواہی نہیں دی لہٰذا اس کی گردن مار دی گئی۔
یہ خبر جب رسول اللہﷺ تک پہنچی تو فرمایا: شہید ہونے والے نے سچائی کے راستے پر قدم رکھا اور دوسرے شخص نے اذن پر وردگار پر عمل کیا لہٰذااس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔(مسندابی شیۃ، ج ۱۲ ص ۳۵۸)
ائمہ علیہم السلام جو بنی امیہ اور نبی عباس کے دور میں تھے، اپنے چاہنے والوں کو تقیہ کا حکم دیا کرتے تھے اسلئے کہ حکومتیں جہاں بھی انہیں پاتی تھیں قتل کر دیتی تھیں لہٰذا اس وقت ائمہ علیہم السلام کی طرف سے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وقت کی جابر و ظالم حکومتوں کے شر سے بچنے کے لئے تقیہ کو اپنا سپر بنائیں۔
۶۔ کیا تقیہ صرف کفار کے مقابلہ میں ہے؟
ہمارے بعض مخالفین کے سامنے جب قرآن کی صرح آیات اور مذکورہ روایات کو بیان کیا جاتا ہے تو وہ تقیہ کی مشروعیت کو ماننے کےلئے مجبور ہو جاتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ یہ تقیہ صرف کفار کے مقابلے میں ہے اور مسلمان کے سامنے کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے۔
(مذکورہ دلائل کی روشنی میں) ان دونوں کے درمیان فرق واضح ہے اس لئے کہ:
۱۔ اگر تقیہ کا مفہوم متعصبوں کے مقابلے میں جان و مال اور ناموس کو محفوظ رکھناہے تو پھر ایک جاہل مسلمان اور متعصب کافر کے درمیان کیا فرق ہے؟ اگر عقل، جان و مال اور ناموس کو بیہودہ قربان نہ کرنے کا حکم دیتی ہے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق باقی بچتا ہے؟
ہمیں ان لوگوں کی خبر ہے جو جھوٹی تبلیغات اور جہالت کی وجہ سے کہتے ہیں: شیعوں کا خون بہانا خدا سے تقرب کا وسیلہ ہے پس اگر ایک محض شیعہ اور اہل بیت علیہم السلام کا پیرو کار ایسے لوگوں کے درمیان گرفتار ہوجاے اور اس سے وہ سوال کریں کہ تمہارا مذہب کیاہے؟ اور وہ جواب دے کہ میں شیعہ ہوں اور اس طرح اپنا گلا جہالت کی تلوار تلے رکھ دے اور جان دے دے تو بتائیں: کیا کوئی عاقل شخص ایسا حکم دے سکتاہے؟
ایک دوسری تعبیر کے مطابق: جو سلوک عرب کے مشرکین نے جناب عمار کے ساتھ کیا یا جو کچھ مسیلمہ کذاب کے پیرو کاروں نے آنحضرتؐ کے دو صحابیوں کے ساتھ روا رکھا یا جو کچھ بنی امیہ اور بنی عباس نے حضرت علی علیہ السام کے شیعوں کے ساتھ کیا تو کیا ایسی صورتوں میں تقیہ کا حکم دینا حرام ہے؟ چاہئے اہل بیتؑ کے ہزاروںمخلص اور چاہنے والے قتل کر دئے جائیں، صرف اس وجہ سے کہ تمام حکام مسلمان ہیں اور ان کے سامنے تقیہ کرنا منع ہے؟ اسی وجہ سے ائمہ علیہم السلام نے شدت کے ساتھ تقیہ کیا ہے یہاں تک کہ فرمایا: ’’ تسۃ اعشارالدین التقیۃ‘‘ دین کے دس حصوںمیں سے نوحصہ تقیہ ہے۔(بخاری ۱۰۹ ص۲۵۴)
بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں مارے جانے والے شیعوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں پہنچتی ہے یعنی ان لوگوں نے جس قدر چاہا شیعوں کا قتل عام کیا۔
کیا ایسے حلات میں اب بھی تقیہ کی مشروعیت کے سلسلے میں کوئی شک باقی رہ جاتاہے؟ ہمیں یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اہل سنت حضرات مسئلہ حادث اور قدیم کے سللہ میں سالہا سال اختلافات میں گرفتار رہے اور اس راہ میں لاتعداد لوگوں کے خون بھی بہائے (جب کہ یہ وہ اختلافات تھے جو کہ دانشمندوں کی نظر میں بیہودہ تھے)۔
کیا وہ لوگ کہ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے، وہ جب اپنے مخالفین کے درمیان پھنس جاتے اور ان سے ان کے عقیدہ کے سلسلے میں سوال کیا جاتا تھا تو کیا انہوں نے واضح طور پر جواب دیا کہ میرا فلاں عقیدہ ہے؟ اگر چہ اس کے بعد ان کا خون بہا دیا جاتا ، خواہ انکی جان جانے سے کوئی فائدہ ہوتا یا نہ ہوتا؟!
۲۔ فخر رازی اس آیت ’’ إِأَنْ تَتَّقُو امِنْہُمْ تُقَاۃً‘‘ کی تفسیر میں کہتے ہیں: اس آیت کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کفار کے غلبہ کے دوران تقیہ مباح ہے،
’’ الا ان مذہب الشافعی۔ رض۔ ان الحالۃ بین المسلمین اذا شاکلت الحالۃ بین المسلمین والمشر کین حلت التقیۃ محاماۃ علی النفس‘‘
شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے آپسی حالات کفار اور مسلمین کے درمیان جیسی حالت ہوجائے تو جان بچانے کےلئے تقیہ حلال ہے۔
اس کے بعد مال کو محفوظ رکھنے کےلئے تقیہ کے جائز ہونے کی دلیل کرتے ہوئے حدیث نبوی کو ذکر کرتے ہیں:’’ حدمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ‘‘ مسلمانوں کے مال کا احترام ان کے خون کے احترام کے مانند ہے۔ اور ’’من قتل دون مالۃ فہو شہید‘‘ جو بھی اپنے مال کو بچانے کی خاطر مارا جائے تو وہ شہید ہوگا۔(تفسیر کبیر فخرازی ج۸ ص۱۳) اور ان حدیثوں کے ذریعہ استدلال کرتے ہیں۔
تفسیر نیشا پوری کہ جو تفسیر طبری کے حاشیہ میں درج ہے، اس میں مذکورہ
’’ قال الامام الشافعی: تجوز التقیہ بین المسلمین کما تجوز بین ال کافرین محاماۃ عن النفس‘‘۔(تفسیر نیشا پوری (در حاشیہ تفسیرالطبری)ج ۳ ص ۱۱۸)
مسلمانوں کے درمیان مال کی حفاظت کی خاطر تقیہ جائزہے جس طرح کہ کفار اور مسلمانوں کے درمیان جائزہے‘‘ ۔
۳۔ مقام توجہ ہے کہ بنی عباس کی خلافت کے دوران اہل سنت کے بعض محدثین ’’ قرآن کے قدیم ہونے‘‘ کے عقیدے کی وجہ سے خفائے بنی عباس کی طرف سے شکنجہ کا شکار تھے لیکن ان میں سے بعض محدثین نے تقیہ قرآن کے حادث ہونے کا اقرار کر لیا اور نجات پا گئے۔
مشہور مورخ ابن سعد ’’ طباقات‘‘ میں اور طبری اپنی تاریخ میں دو خطوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جسے مامون نے بغداد کے داروغہ’’ اسحاق بن ابراہیم‘‘ کو لکھا تھا۔
پہلے خط کے سلسلے میں ابن سعد تحریر کتےہیں: مامون نے اسحاق بن ابراہیم کو لکھا کہ سات محدثین (محمد بن سعد کا تب واقدی ، ابو مسلم یحیی بن معین، زہیر بن حرب، اسماعیل بن داود، اسماعیل بن ابی مسعود اور احمد بن الدورقی) کو حفاظت سے میرے پاس روانہ کرو، وہ لوگ جب مامون کے پاس آئے تو اس نے امتحان کی غرض سے سوال کیا: قرآن کے سلسلے میں آپ لوگوں کا نظریہ کیا ہے؟ سب نے مل کر جواب دیا کہ قرآن مخلوق ہے ( جب کہ محدثین کے درمیان قرآن کا قدیم ہونا مشہورتھا)۔(طبقات ابن سعدج۷ص۱۶۷چاپ بیروت)۔
ہاں! ان لوگوں نے مامون کے غضب سے بچنے کے لئے تقیہ کرلیا تھا اور قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کر کے نجات پالی تھی۔
دوسرا خط جسے طبری نے نقل کیا ہے وہ بھی مامون کی طرف سے بغداد کے دار وغہ کے نام تھا، جب مامون کا خط اسے ملا تو اس نے ۲۶ اس نے ۲۶ محدثین کو جمع کیا اور انہیں مامون کے خط سے آگاہ کیا، اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کو اپنے عقیدہ از طہار کے لئے کہا، ان میں سے چار محدثین کے سواسب نے (تقیہ کرتے ہوئے ) قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کر لیا۔
وہ چار محدثین کہ جنہوں نے اعتراف نہیںکیا تھا وہ احمد حنبل ، سجادۃ، القواریری اور محمد بن نوح تھے، داروغہ نے حکم دیا کہ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر زندان میںڈال دیا جائے، دوسرے دن دوبارہ انہیںحاضر کیا گیا اور پھر وہی سوال دہرایا گیا، ان میں تنہا سجادۃ نے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کیا اور آزاد ہوگیا لیکن بقیہ محدثین نے اقرار نہیں کیا اور وہ دوبارہ زندان بھیج دئے گئے۔
تیسرے دن دوبارہ ان تینوں کو حاضر کیا گیا، اس دن القواریری نے اقرار کر کے نجات پالی لیکن احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نے اپنے اسی عقیدہ کو دوبارہ ہر ایک توداروغہ نے انہیں طر طوس(شام میں دریا کے کنارے ایک شہر کا نام، معجم البلدان ج ۴ ص۳۰) کی طرف جلاء وطن کر دیا۔
جب بعض لوگوں نے تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا تو ان لوگوں نے کفار کے مقابلے میں جناب عمار بن یاسر کی مثال پیش کی۔(تاریخ طبری ص ۱۹۷)
یہ تمام موارد اس بات پر دلالت کرتےہیں کہ جب بھی انسان سخت مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے اور دشمنوں کے شر سے بچنے کا واحد راستہ تقیہ ہو تو وہ تقیہ کو اختیار کر سکتا ہے دوشمن خواہ کافر ہو یا اپنا مسلمان۔
۷۔ تقیہ حرام
بعض مقامات پر تقیہ حرام ہے، مثلاً جب بعض لوگ اس حالت میں تقیہ کریں کہ اگر وہ خاموش رہ گئے تو اسلام خطرے میں پڑجائے گا یا مسلمان سخت مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے تو پھر ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کا اظہار کریں اگر چہ وہ خود اس کے بعد مصیبتوں سے دو چار ہوجائیں۔
اور وہ لوگ جوان موارد کو’’ وَلَاتُلْقُو ابِأَیُدِ یکُمْ إِ لَی الَّہْلُکَۃِ‘‘ کو دلیل بنا کر اعتراض کرتے ہیں وہ سخت اشتباہ کر رہے ہیں، اس لئے کہ اس قول کا لازمہ یہ ہے کہ پھر جہاد کیلئے میدان جنگ میں بھی نہ اترا جائے ، جب کہ کوئی بھی عقلمند اس منطق کو قبول نہیں کر سکتا۔
یہیں سے یہ مطلب واضح ہوجاتاہے کہ یزید کے مقابلے میں امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک دینی و ظیفہ کے تحت تھا کہ جس کی وجہ سے امامؑ نے تقیہ سے دوری کرتے ہوئے یزیدیوں اور بنی امیہ کے ساتھ سازش نہیں کی اس لئے کہ اگر ان کے ساتھ سازش کرلیتے تو پھر اسلام خطرے میںپڑ جاتا لہٰذا آپ کا قیام مسلمانوں کی بیداری اور جاہلیت کے پنجوں سے اسلام کی نجات کے لئے تھا۔
۸۔ تقیہ مدارائی
یہ تقیہ کی ایک قسم ہے کہ جس میں ایک مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو برقرار کرنے کےلئے ان چیزوں میں تقیہ کرتے ہیں کہ جس سے دین کی بنیادوں پر اثر نہیں پڑتا۔
مثلاً اہلبیتؑکے چاہنے والوں کا عقیدہ ہے کہ فرش پر سجدہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ سجدہ کرنے کےلئے زمین یا اسی جیسی کوئی چیز ہواور اس مدعا کی دلیل رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے ’’ جعلت لی الارض مسجدو طہورا‘‘زمین میرے لئے سجدہ کرنے کی جگہ اور تمیم کا وسیلہ قرار دیاگیاہے‘‘(صحیح بخاری ج ۹۱وسنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳۳؍اور دیگر کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔) جس کو وہ لوگ پیش کرتےہیں۔
اب اگر یہ لوگ وحدت کو برقرار رکھناچاہیں تو پھر انہیں مسجد الحام اور مسجد النبی میں نماز پڑھنے کیلئے اسی فرش پر سجدہ کرنا پڑے گا۔
یہ عمل جائز اور یہ نماز ہمارے عقیدے کے مطابق صحیح ہے، اسی عمل کو تقیہ مدارائی کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس مقام پر جان ومال کے لئے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے بلکہ اسلام کے دیگر فرقوں کے ساتھ مدارا کرنا ہے۔
تقیہ کی بحث کو ایک بزرگ کا قول نقل کرتے ہوئے تمام کرتے ہیں:
شیعوں کے ایک بڑے عالم دین نے جامعہ ازہرکے ایک شیخ سے ملاقات کی تو اس شیخ نے اس شیعی عالم دین کو سرزنش کرتے ہوئے کہا: ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگ تقیہ کرتے ہیں؟
شیعی عالم دین نے کہا: لعن اللہ من حملن اعلی التقیۃ‘‘ اس پرخدا کی لعنت ہو جس نے ہمیں تقیہ کرنے پر مجبور کر دیا ۔