مسجد میں جئے شری رام کا نعرہ لگانا جرم کیسے ہے؟ سپریم کورٹ نے کرناٹک حکومت سے پوچھاسوال
29
M.U.H
16/12/2024
سپریم کورٹ نے فی الحال مسجد میں ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر درج مقدمے کی منسوخی کے خلاف عرضی پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے عرضی گزار سے کہا ہے کہ وہ عرضی کی ایک کاپی کرناٹک حکومت کو پیش کرے۔ ریاستی حکومت سے معلومات لینے کے بعد وہ جنوری میں کیس کی سماعت کریں گے۔سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت پٹیشنر حیدر علی کی طرف سے پیش ہوئے، جو کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع کے کدابا تعلقہ کے رہائشی ہیں۔ جسٹس پنکج متل اور سندیپ مہتا کی بنچ نے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا کہ مذہبی مسئلہ کو اٹھانا جرم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس پر کامت نے کہا کہ یہ بھی کسی دوسرے مذہب کے مذہبی مقام میں زبردستی داخلے اور دھمکی دینے کا معاملہ ہے۔ وہاں اپنے مذہب کے نعرے لگا کر ملزمان نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
کامت نے مزید کہا کہ اس معاملے میں سی آر پی سی کی دفعہ 482 کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے کیس کی تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی ایف آئی آر منسوخ کر دی ہے۔ اس پر ججز نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ ملزمان کے خلاف کیا ثبوت ہیں اور پولیس نے ان کا ریمانڈ مانگتے ہوئے نچلی عدالت کو کیا بتایا؟13ستمبر کو ہائی کورٹ نے مسجد میں جے شری رام کا نعرہ لگانے پر دو افراد – کیرتن کمار اور سچن کمار کے خلاف فوجداری کارروائی کو منسوخ کر دیا تھا۔ ان دونوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 447، 295 اے اور 506 کے تحت غیر قانونی داخلے، مذہبی مقام پر اشتعال انگیزی اور دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
لیکن جسٹس ناگاپراسنا کی سربراہی والی ہائی کورٹ بنچ نے کہا تھا کہ علاقے کے لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔ دو لوگوں کی طرف سے لگائے گئے کچھ نعروں کو دوسرے مذہب کی توہین نہیں کہا جا سکتا۔ اس بنیاد پر ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا تھا۔اب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے جس پر عدالت نے نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔