فلسطینی ریاست کے لیے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے: امریکی سفیر
41
M.U.H
11/06/2025
غاصب اسرائیلی ریاست میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی نے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور فلسطینی ریاست کے لیے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی سفیر نے کہا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے۔
تاہم، امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے اسرائیل میں امریکی سفیر کے اس بیان پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بیان کی کوئی وضاحت نہیں کروں گی، میرے خیال میں انہوں نے ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ بلومبرگ نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب امریکی سفیر مائیک ہکابی سے سوال کیا گیا کہ کیا فلسطینی ریاست اب بھی امریکی پالیسی کا ہدف ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا میرا نہیں خیال۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے جب پوچھا گیا کہ آیا ہکابی کے بیانات امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ پالیسی سازی کا اختیار ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے پاس ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جب امریکی سفیر کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ترجمان نے رواں سال کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے غزہ پر امریکی کنٹرول کی تجویز دی تھی۔
تاہم، ٹرمپ کے اس بیان کی انسانی حقوق کی تنظیموں، عرب ممالک، فلسطینیوں اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کی تھی اور اسے نسلی صفائی کی تجویز قرار دیا تھا۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مائیک ہکابی اسرائیل کے پرزور حامی اور قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں۔ بلومبرگ کو دیے گئے انٹریو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک کچھ نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں جو کلچر کو بدل دیں، اس وقت تک اس (فلسطینی ریاست) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، غالباً یہ تبدیلیاں ہماری زندگی میں نہیں ہوں گی۔
امریکی سفیر نے تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کے لیے اسرائیل کو جگہ خالی کرنے کے بجائے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقوام متحدہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔ اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے غزہ میں نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔