ہندوستان کا آئین سیاہی میں رقم کیا گیا ایک خاموش انقلاب ہے، چیف جسٹس بی آر گوئی کا بیان
35
M.U.H
12/06/2025
ہندوستان کے چیف جسٹس، جسٹس بی آر گوئی نے بدھ کو آکسفورڈ یونین میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں عدالتی فعالیت (جیوڈیشل ایکٹیوزم) کی اپنی اہمیت ضرور ہے لیکن عدلیہ کو اپنی حدود کا بخوبی خیال رکھنا چاہیے تاکہ مداخلت وہاں نہ ہو جہاں اس کی ضرورت نہ ہو۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا، ’’عدالتی فعالیت کو عدالتی دہشت گردی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
جسٹس گوئی آکسفورڈ یونین میں ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ عدلیہ اپنی حدود پار کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ان دائرہ کاروں میں داخل ہو جاتی ہے جہاں اسے عام طور پر نہیں جانا چاہیے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس طرح کا رجحان جمہوری توازن کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اگرچہ عدلیہ کو اپنے دائرے میں کام کرنا چاہیے لیکن جب مقننہ یا انتظامیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو جائیں، تو عدلیہ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، اس مداخلت کو محدود اور غیر معمولی حالات تک محدود رکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ’’اگر کوئی قانون آئین کی بنیادی ساخت کے خلاف ہو، یا بنیادی حقوق سے براہِ راست ٹکراتا ہو، یا اگر وہ قانون سراسر امتیازی اور من مانا ہو، تو ایسی صورت میں عدالتوں کو مداخلت کا حق حاصل ہے اور عدلیہ نے ایسا کیا بھی ہے۔‘‘
اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس گوئی نے کہا کہ ہندوستانی آئین نے ہی انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں ایک دلت ہوں، ایک ایسی ذات سے آتا ہوں جسے تاریخی طور پر 'اچھوت' کہا جاتا تھا لیکن آج میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوں اور آکسفورڈ یونین سے خطاب کر رہا ہوں۔ یہ ہندوستانی آئین کی دین ہے۔‘‘
چیف جسٹس گوئی نے ہندوستانی آئین کو ’سیاہی میں رقم کیا گیا ایک خاموش انقلاب‘ قرار دیا اور کہا کہ اس آئین میں ان طبقات کی دھڑکنیں شامل ہیں جن کی آواز پہلے کبھی نہیں سنی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہندوستانی آئین صرف حقوق کی حفاظت کا حکم نہیں دیتا بلکہ فعال انداز میں سوسائٹی کو بہتر بنانے، بااختیار بنانے اور آگے بڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘