رائٹرز اور مغربی میڈیا ادارے غزہ میں صحافیوں کے قتلِ عام کو جواز فراہم کرنے میں شریک ہیں، کینیڈین صحافی
10
M.U.H
27/08/2025
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر سے وابستہ کینیڈین صحافی ویلیری زنک نے 8 برس تک خدمات انجام دینے کے بعد ادارے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ رائٹرز اور دیگر مغربی میڈیا ادارے غزہ میں صحافیوں کے قتلِ عام کو جواز فراہم کرنے میں شریک ہیں اور اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بدھ کو کینیڈین صحافی ویلیری زنک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ’رائٹرز‘ کے لیے کام جاری نہ رکھنے کا بیان پوسٹ کیا ہے۔
کینیڈین صحافی نے اپنی پوسٹ پر لکھا کہ گزشتہ 8 برسوں سے میں رائٹرز نیوز ایجنسی کے ساتھ بطور اسٹرنگر کام کر رہی ہوں، میرے فوٹوگراف نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دیگر عالمی میڈیا اداروں میں شائع ہوئے ہیں اور شمالی امریکا، ایشیا، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں پہنچے۔ ویلیری زنک نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ اس مقام پر آکر میرے لیے رائٹرز کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے کیوں کہ اس کا کردار غزہ میں 245 صحافیوں کے منظم قتل کی جواز تراشی اور اسے سہولت فراہم کرنے میں ہے، اپنے فلسطینی ساتھیوں کے لیے مجھ پر کم از کم اتنا تو قرض ہے، یا اس سے کہیں زیادہ۔
کینیڈین صحافی نے مزید لکھا کہ جب اسرائیل نے 10 اگست کو غزہ سٹی میں انس الشریف اور الجزیرہ کی پوری ٹیم کو قتل کیا تو رائٹرز نے اسرائیل کا وہ بالکل بے بنیاد دعویٰ شائع کرنے کا انتخاب کیا کہ انس الشریف حماس کا رکن تھا، یہ ان بے شمار جھوٹوں میں سے ایک تھا جنہیں رائٹرز جیسے میڈیا ادارے بار بار دہراتے اور انہیں وقعت دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے کی رائٹرز کی آمادگی نے ان کے اپنے رپورٹرز کو بھی اسرائیل کی نسل کشی سے محفوظ نہیں رکھا، آج صبح ایک اور حملے میں نصر اسپتال میں 20 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 5 مزید صحافی بھی شامل تھے، جن میں رائٹرز کے کیمرا مین حسام المصری بھی تھے۔
کینیڈین صحافی نے لکھا کہ یہ وہی تھا، جسے ڈبل ٹیپ حملہ کہا جاتا ہے، یعنی اسرائیل کسی اسکول یا اسپتال جیسے شہری ہدف پر بمباری کرتا ہے، پھر میڈیکس، ریسکیو ٹیموں اور صحافیوں کے پہنچنے کا انتظار کرتا ہے اور دوبارہ حملہ کرتا ہے۔ ویلیری زنک کے بقول مغربی میڈیا براہِ راست اس ماحول کا ذمہ دار ہے، جس میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے جیسا کہ ڈراپ سائٹ نیوز کے جیریمی اسکاہل نے کہا کہ ’ہر بڑا ادارہ نیویارک ٹائمز سے لے کر واشنگٹن پوسٹ تک، اے پی سے رائٹرز تک، اسرائیلی پروپیگنڈے کے لیے ایک کنویئر بیلٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے، جنگی جرائم کو صاف و شفاف بنا کر پیش کرتا ہے، متاثرین کو غیر انسانی بناتا ہے، اپنے ساتھیوں اور صحافت کی سچائی و اخلاقیات کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔
کینیڈین صحافی نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ مغربی میڈیا اداروں نے اسرائیل کے نسل کش بیانیے کو بغیر کسی تصدیق کے دہرا کر، صحافت کی بنیادی ذمہ داری کو ترک کرتے ہوئے اس قتلِ عام کو ممکن بنایا، جس میں صرف دو برس میں ایک چھوٹی سی زمینی پٹی پر اتنے صحافی مارے گئے جتنے پہلی جنگِ عظیم، دوسری جنگِ عظیم، کوریا، ویتنام، افغانستان، یوگوسلاویہ اور یوکرین کی جنگوں میں بھی نہیں مرے، اس کے علاوہ ایک پوری آبادی کو بھوکا رکھنا، بچوں کو چیر دینا اور لوگوں کو زندہ جلانا تو اپنی جگہ ہے۔ ویلیری زنک نے لکھا کہ انس الشریف کے کام کی وجہ سے رائٹرز کے لیے پلٹزر انعام کی جیت بھی رائٹرز کو اس پر مجبور نہ کر سکی کہ جب اسرائیلی قابض افواج نے انہیں ہٹ لسٹ پر ڈال دیا۔
یہ جیت انہیں مجبور نہ کر سکی کہ جب انہوں نے عالمی میڈیا سے تحفظ کی اپیل کی اور ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے ویڈیو میں ان کے قتل کی نیت کا اعلان کیا تو وہ ان کا ساتھ دیتے اور یہ جیت انہیں مجبور نہ کر سکی کہ جب چند ہفتوں بعد انہیں تلاش کر کے قتل کر دیا گیا تو وہ ان کی موت پر سچائی سے رپورٹنگ کرتے، میں نے ان 8 برس میں رائٹرز کے ساتھ کیے گئے اپنے کام کی قدر کی ہے، لیکن اس مقام پر میں اس پریس پاس کو شرمندگی اور غم کے سوا کسی جذبے کے ساتھ پہننے کا تصور نہیں کر سکتی، میں نہیں جانتی کہ غزہ کے صحافیوں (جو سب سے بہادر اور بہترین تھے) کی ہمت اور قربانی کو عزت دینے کا آغاز کیسے کیا جائے، لیکن آئندہ جو کچھ بھی میں کر سکوں گی، وہ اسی جذبے کے ساتھ ہوگا۔