وقف ترمیمی قانون 2025 پر عبوری روک کی درخواستوں پر سپریم کورٹ 15 ستمبر کو سنائے گا اپنا فیصلہ
32
M.U.H
14/09/2025
سپریم کورٹ 15 ستمبر کو وقف (ترمیمی) قانون 2025 کے نفاذ کو روکنے سے متعلق ایک درجن سے زائد درخواستوں پر عبوری حکم کے سلسلے میں اپنا فیصلہ سنائے گا۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹن جارج مسیح پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو اب 15 ستمبر کو سنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 5 اپریل کو اس متنازعہ ترمیمی قانون کو منظوری دے دی تھی، جسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شدید بحث و مباحثے کے بعد منظور کیا گیا تھا۔ درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
دریں اثنا مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت میں کہا کہ وقف جائیدادوں کا غلط استعمال کیا گیا ہے، تاریخی عمارتوں میں غیر قانونی دکانیں بنائی گئیں اور کئی غیر مجاز تبدیلیاں کی گئیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قانون سازی ایک آئینی ادارے کا دائرۂ اختیار ہے اور کسی درست طور پر بنائے گئے قانون کو صرف مفروضوں کی بنیاد پر معطل نہیں کیا جا سکتا۔ راجستھان اور ہریانہ کی حکومتوں نے وقف ترمیمی قانون کی حمایت کی۔
دوسری جانب معروف وکیل کپل سبل نے حکومت کے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وقف جائیدادوں پر حقوق کو محض انتظامی خامیوں کے باعث چھینا نہیں جا سکتا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا غیر رجسٹرڈ وقف جائیدادوں کو صرف اس بنیاد پر حکومتی زمین قرار دیا جا سکتا ہے کہ ان کے سروے نہیں ہوئے؟ وہیں مرکز نے عدالت کو بتایا کہ وقف کی زمینیں مستقل ہوتی ہیں اور قبائلی زمینوں کو وقف قرار دینا ممکن نہیں کیوں کہ یہ ان کے مفادات کے منافی ہے۔ مرکز نے یہ بھی کہا کہ ترمیم کا مقصد ریکارڈ کی درستگی ہے، نہ کہ کسی مذہبی گروہ کے حقوق سلب کرنا۔ مرکز کے مطابق 2013 کے بعد 20 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین کو وقف قرار دیا گیا، جو تشویش ناک ہے۔