دہلی دھماکہ کیس: راج ناتھ سنگھ نے سخت کارروائی کا وعدہ کیا
28
M.U.H
11/11/2025
دفاعی وزیر راج ناتھ سنگھ نے منگل کے روز کہا کہ حالیہ دہلی میں ہونے والے زوردار دھماکے کے معاملے کی تفتیش ملک کی نمایاں تحقیقاتی ایجنسیاں "تیزی اور مکمل گہرائی" کے ساتھ کر رہی ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس سانحے کے ذمہ داروں کو ہرگز نہیں بخشا جائے گا اور تحقیقات کی تفصیلات جلد ہی عوام کے سامنے پیش کی جائیں گی۔
دفاعی وزیر نے ان خاندانوں سے گہری ہمدردی کا اظہار بھی کیا جنہوں نے اس دھماکے میں اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ یہ دھماکہ پیر کی شام دہلی میں ہوا تھا، جس میں آٹھ افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ "منیہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ برائے دفاعی مطالعات و تجزیات (ایم پی-آئی ڈی ایس اے )" میں منعقدہ "دہلی ڈیفنس ڈائیلاگ" سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ میں اُن تمام افراد کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جنہوں نے کل دہلی میں پیش آئے المناک واقعے میں اپنی جانیں گنوائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا متاثرہ خاندانوں کو صبر و حوصلہ عطا کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس پلیٹ فارم سے قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسیاں اس واقعے کی تیزی سے اور مکمل تحقیقات کر رہی ہیں۔ تحقیق کے نتائج جلد ہی عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ میں رسمی طور پر قوم کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ جو بھی اس سانحے کے ذمہ دار ہیں، اُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دھماکے کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی سیکیورٹی میٹنگ کی صدارت کی۔ اس میٹنگ میں ہوم سکریٹری گووند موہن، انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر تپن ڈیکا، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سدانند واسنت ڈیٹ، اور دہلی پولیس کمشنر ستیش گولچھا شریک ہوئے، جبکہ جموں و کشمیر کے ڈی جی پی نالِن پربھات نے آن لائن شمولیت اختیار کی۔
ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ لال قلعہ کے قریب ہونے والا یہ زوردار دھماکہ ممکنہ طور پر ایک "فدائین حملہ" تھا۔ ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ حملہ آور دھماکہ کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ فریدآباد میں دہشت گردانہ نیٹ ورک پکڑے جانے کے بعد اُس نے گرفتاری سے بچنے اور زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے فدائین طرز کے حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تحقیقاتی ادارے اس پہلو کی بھی جانچ کر رہے ہیں کہ آیا حملے کا اصل ہدف کوئی اور جگہ تو نہیں تھی، کیونکہ گاڑی دھماکے سے قبل آہستہ چل رہی تھی۔ تمام ممکنہ پہلوؤں پر تفتیش جاری ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر اور ہریانہ پولیس نے پیر کے روز فریدآباد سے 360 کلو دھماکہ خیز مواد اور گولہ بارود برآمد کیا تھا اور دو افراد ڈاکٹر مزمل اور عادل رادر کو گرفتار کیا تھا۔ اب ایجنسیاں اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اس دھماکے کے پیچھے اصل مقصد کیا تھا، اس میں کون کون شامل تھا اور واقعے سے قبل کیا واقعات پیش آئے۔ ریپڈ ایکشن فورس کو لال قلعہ کے قریب تعینات کر دیا گیا ہے، جہاں پیر کی شام تقریباً 7 بجے ہنڈائی آئی-20 گاڑی میں دھماکہ ہوا تھا۔
متعدد ایجنسیاں، بشمول دہلی پولیس اور فرانزک سائنس لیبارٹری ، جائے وقوعہ پر تحقیقات کر رہی ہیں۔ تحقیقات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ڈیٹا کے تجزیے کو اہم شواہد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تفتیش کاروں نے مشتبہ گاڑی کی نقل و حرکت کا سراغ لگا لیا ہے اور دھماکے سے پہلے اور بعد میں ممکنہ رابطوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
افسران کے مطابق، سی سی ٹی وی فوٹیج میں مشتبہ گاڑی کو دھماکے سے کچھ دیر پہلے لال قلعہ پارکنگ میں داخل ہوتے اور نکلتے دیکھا گیا ہے۔ فوٹیج میں ڈرائیور اکیلا نظر آتا ہے۔ دریاغنج کی سمت کا راستہ بھی تفتیش کے دائرے میں ہے۔ اب تک 100 سے زائد سی سی ٹی وی ویڈیوز، جن میں قریبی ٹول پلازہ کی فوٹیج بھی شامل ہے، کا تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ گاڑی کی پوری حرکت کا نقشہ تیار کیا جا سکے۔
لال قلعہ کے قریب ہونے والے دھماکے نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا اور بڑے پیمانے پر سیکیورٹی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اسپیشل سیل، کرائم برانچ، اور ایف ایس ایل کی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں، علاقہ سیل کر دیا گیا اور عام لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ادارے سوشل میڈیا سرگرمیوں پر بھی باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دھماکے کے بعد رابطوں کے ریکارڈ کا تکنیکی تجزیہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اُس وقت لال قلعہ کے ارد گرد فعال تمام موبائل فونز کے ڈیٹا کی جانچ کی جا رہی ہے تاکہ ممکنہ مشتبہ نمبروں اور ان کے ساتھیوں کا سراغ لگایا جا سکے۔
تفتیش کاروں نے فریدآباد تک تجزیہ بڑھا دیا ہے تاکہ وہاں کے ممکنہ روابط اور رابطہ پیٹرن معلوم کیے جا سکیں۔ انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈ کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ اُن ڈیوائسز کا پتہ لگایا جا سکے جو دھماکے کے فوراً بعد بند کر دی گئی تھیں، جو ممکنہ طور پر گرفتاری سے بچنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔