نئی سرکاری تعریف سے اراولی کی 90 فیصد پہاڑیاں خارج! جے رام رمیش کا سخت اعتراض، شدید ماحولیاتی جھٹکا قرار دیا
20
M.U.H
27/11/2025
کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے اراولی سے متعلق مرکزی حکومت کی نئی تعریف پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے ماحولیات کے لیے شدید جھٹکا قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا کہ وزارتِ ماحولیات نے سپریم کورٹ کو جو نئی تکنیکی تعریف بھیجی ہے، اس کے تحت اراولی کی تقریباً 90 فیصد پہاڑیاں سرے سے خارج کر دی گئی ہیں، جس کا نتیجہ دہائیوں پر محیط ماحولیاتی نقصان کی شکل میں سامنے آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اراولی دہلی، ہریانہ، راجستھان اور گجرات میں پھیلا ہوا ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے جو نہ صرف صدیوں سے قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے بلکہ دھول- خصوصاً تھار اور راجستھان کی سخت اور خشک ہواؤں کو شمال اور مشرق کی سمت میں جانے سے روکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر، زراعت، جنگلاتی حیات اور این سی آر کے ہوا کے معیار کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے مگر گزشتہ برسوں میں کان کنی، تعمیراتی سرگرمیوں اور غیر قانونی تجاوزات نے اسے بری طرح کمزور کر دیا ہے۔
جے رام رمیش کے مطابق حکومت نے یہ کہہ کر نئی تعریف پیش کی ہے کہ اس سے غیر قانونی کان کنی پر قابو پانے میں مدد ملے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی پہاڑی کو اراولی مانا ہی نہیں جائے گا تو اس کی قانونی حفاظت بھی ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس نئی تعریف کے نتیجے میں اراولی کے بڑے حصے میں کھلی کان کنی، تعمیرات اور زمینی استعمال میں تبدیلی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ نہ صرف ایک ماحولیاتی سانحہ ثابت ہوگا بلکہ عوامی صحت اور روزگار پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ نیک نیتی کے نام پر لیا گیا ہے مگر اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ثابت ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر فوری نظرثانی ضروری ہے تاکہ اراولی کا قدرتی ڈھانچہ بچایا جا سکے اور دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آلودگی کی صورتحال مزید بدتر نہ ہو۔
واضح رہے کہ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 20 نومبر کو وزارتِ ماحولیات کے ایک پینل کی سفارشات منظور کیں جن میں اراولی کو پہچاننے کے لیے دو اہم معیارات طے کیے گئے ہیں: کم از کم 100 میٹر بلندی، کم از کم 3 ڈگری ڈھلوان۔
ماہرین کے مطابق ان دونوں معیارات کے باعث اراولی کی زیادہ تر نچلی پہاڑیاں فہرست سے باہر ہو جائیں گی۔ رپورٹ کے مطابق راجستھان کے 34 میں سے زیادہ تر اضلاع میں اراولی کی جو پہاڑیاں ہیں، وہ 100 میٹر سے کم بلندی رکھتی ہیں اور انہی پہاڑیوں کی وجہ سے این سی آر میں دھول کا پھیلاؤ رک جاتا ہے۔ اگر انہیں اراولی نہ مانا جائے تو ان کے علاقوں میں کان کنی اور تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت مل سکتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کسی پہاڑی کی بلندی 100 میٹر ہو بھی جائے مگر اس کے آس پاس کا علاقہ اس سے زیادہ اونچا ہو تو اسے بھی اراولی نہیں سمجھا جائے گا۔ ماہرین نے اسے غیر منطقی اور ماحولیاتی حقیقت سے دور قرار دیا ہے، کیونکہ اراولی کی اصل اہمیت اس کی اونچائی نہیں بلکہ اس کی جغرافیائی پوزیشن اور رکاوٹ کے طور پر کردار ہے۔