اروندھتی رائے کی کتاب پر پابندی کی درخواست سپریم کورٹ سے مسترد، کور کی سگریٹ والی تصویر پر تھا اعتراض
11
M.U.H
05/12/2025
سپریم کورٹ نے معروف مصنفہ اروندھتی رائے کی نئی کتاب ’مدر میری کمز ٹو می‘ کی فروخت، تقسیم اور تشہیر پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ایک مفاد عامہ کی درخواست کو جمعہ کے روز یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس درخواست میں ایسا کوئی پہلو موجود نہیں جو عدالتی مداخلت کا متقاضی ہو۔ درخواست گزار نے کتاب کے سرورق پر موجود اس تصویر پر اعتراض اٹھایا تھا جس میں اروندھتی رائے کو سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ طرزِ اظہار تمباکو سے متعلق قانون 2003 کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اس سے قبل کیرالہ کی عدالتِ عالیہ نے بھی پابندی کی درخواست کو اسی بنیاد پر ناقابلِ قبول قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ایک تخلیقی یا ادبی کلام کے سرورق کو تجارتی تشہیر میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست گزار، وکیل راج سنگھن نے دونوں عدالتوں میں یہ موقف اختیار کیا کہ سرورق پر اس نوعیت کی تصویر نوجوان قارئین، خصوصاً لڑکیوں اور خواتین پر منفی اثر ڈال سکتی ہے اور سگریٹ نوشی کو ذہانت، تخلیقی قوت یا آزادی کے ساتھ جوڑنے کا غلط تاثر دے سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہیں کتاب کے مواد، نظریاتی پہلو یا اس کے ادبی معیار سے کوئی اختلاف نہیں، ان کا اعتراض محض سرورق پر مرکوز ہے۔
چیف جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اروندھتی رائے ایک موقر مصنفہ ہیں اور کتاب میں کسی بھی مقام پر سگریٹ نوشی کی ترغیب نہیں دی گئی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کتاب میں ضروری انتباہ درج ہے اور اس کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ سرورق قانون کی خلاف ورزی ہے۔
بنچ نے نشاندہی کی کہ تمباکو سے متعلق قانون کا اطلاق ان مصنوعات کے پیکٹ پر ہوتا ہے جن کی خریدوفروخت براہِ راست تمباکو کے استعمال سے وابستہ ہو۔ اس قانون کو ادبی اشاعتوں یا کتابوں تک توسیع دینا مناسب نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی بنیاد ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ تخلیقی اظہار کو غیر ضروری ضابطوں کے تحت لانا اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کے مترادف ہوگا۔ عدالت کے مطابق صرف ایک تصویر کی بنیاد پر کتاب کی فروخت اور تشہیر روکنے کی استدعا قبول نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس کا اثر براہِ راست ادبی آزادی اور اشاعتی عمل پر پڑے گا۔ عدالت نے اعلان کیا کہ کیرالہ کی عدالتِ عالیہ کا فیصلہ درست ہے اور اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں، لہٰذا درخواست مسترد کی جاتی ہے۔