درگاہ اجمیر کی آمدنی اور خرچ کی سی اے جی جانچ ہوگی
16
M.U.H
19/04/2025
اجمیر: اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ میں پیش آنے والے معاملات کی اب کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل جانچ کرے گا۔ درگاہ سے وابستہ خادموں کی دو انجمنوں کی مالیاتی تفصیلات کی مکمل تفتیش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے باقاعدہ احکامات جاری کر دیے گئے ہیں، اور اس تفتیش کے لیے صدرِ جمہوریہ کی منظوری بھی حاصل کر لی گئی ہے۔
یاد رہے کہ کسی نجی ادارے کی سی اے جی جانچ کے لیے صدر کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے عدالت کو صدرِ جمہوریہ کی منظوری کے بارے میں مطلع کیا اور سرکاری حکم نامہ بھی دکھایا۔ عدالت نے صدر کی منظوری اور مرکزی حکومت کے حکم کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا ہے۔ اب جلد ہی تفتیشی عمل شروع ہو جائے گا۔ اجمیر شریف کی درگاہ میں خادموں کی دو بڑی انجمنیں کام کرتی ہیں۔
درگاہ کے د ان پاتر (دان پتروں) میں جو چڑھاوے جمع ہوتے ہیں، وہ درگاہ کمیٹی کو دیے جاتے ہیں، جو کہ حکومت کے تحت چلنے والا ادارہ ہے۔ زائرین کو درگاہ میں زیارت کروانے کا کام خادم کرتے ہیں۔ سینکڑوں خادموں کو زیارت پر آنے والے زائرین سے نقدی ملتی ہے۔
ان انجمنوں کو کتنی رقم ملتی ہے، اس کا حساب کیسے رکھا جاتا ہے، اور وہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے — اب سی اے جی ان سب نکات کی تفتیش کرے گا۔ جن نکات پر ہوگی جانچ، وہ درج ذیل ہیں۔ خادموں کو دی گئی رقم میں سے درگاہ پر کتنا خرچ ہوا؟ فلاحی کاموں میں کتنی رقم استعمال ہوئی؟ کیا زائرین کی مالی مدد کی گئی؟ کیا انجمنیں باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں؟ کیا ان کا نظام حکومتی ضوابط کے مطابق ہے؟ کیا ان کو زائرین سے پیسے لینے کا اختیار ہے؟
ابتدائی طور پر پچھلے پانچ سال کی آمدنی، خرچ اور چڑھاوے کا آڈٹ ہوگا۔ صدر کی منظوری کے بعد وزارتِ مالیات نے باضابطہ حکم جاری کر دیا ہے۔ دو افسران پر مشتمل سی اے جی کی ٹیم بھی اس کام کے لیے نامزد کر دی گئی ہے۔ عام طور پر سی اے جی صرف سرکاری اداروں یا سرکاری امداد سے چلنے والے اداروں کی جانچ کرتا ہے۔ نجی ادارے کی جانچ کے لیے صدرِ جمہوریہ کا حکم لازمی ہے۔ پچھلے سال 15 مارچ کو وزارتِ اقلیتی امور نے انجمنوں کو سیکشن 20سی کے تحت نوٹس جاری کیا تھا۔
یہ نوٹس وزارتِ داخلہ کے مشورے پر جاری کیا گیا تھا جس میں انجمنوں کی آمدنی اور خرچ کی سی اے جی کے ذریعے جانچ کا عندیہ دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق وزارتِ داخلہ کو شکایت ملی تھی کہ درگاہ کو موصولہ غیر ملکی فنڈنگ اور زیارت کے بدلے ملنے والی رقوم کو غلط مقاصد میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ انجمنوں نے اس نوٹس کا جواب دیا اور اس نوٹس کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا۔ یہ درخواست 23 مئی 2023 کو عدالت میں دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا کہ زائرین زیارت کے بدلے اپنی خوشی سے خادموں کو بَخشش دیتے ہیں، اور اسی پر ان کے خاندانوں کی گزر بسر ہوتی ہے۔ خادم درگاہ میں خدمت اور عقیدت سے کام کرتے ہیں اور زائرین کی مدد کرتے ہیں۔ عدالت میں یہ بھی مؤقف رکھا گیا کہ صدر کی منظوری کے بغیر کسی نجی ادارے کی سی اے جی جانچ نہیں کی جا سکتی۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ نوٹس میں کسی خاص نقطے پر وضاحت نہیں مانگی گئی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا، مگر حکومت کی جانب سے کئی تاریخوں پر جواب داخل نہیں کیا گیا۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اب چونکہ صدرِ جمہوریہ کی منظوری مل چکی ہے اور حکومت نے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں، اس لیے انجمنوں کی درخواست بے بنیاد ہو گئی ہے۔
حکم کی کاپی عدالت اور درخواست گزار وکیل آشیش کمار سنگھ کو بھی فراہم کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اسے ریکارڈ پر لایا جائے۔ آئندہ ہفتے اس مقدمے میں دہلی ہائی کورٹ میں دوبارہ سماعت ہونے کا امکان ہے۔ انجمنوں کو یا تو اپنی پرانی درخواست میں ترمیم کرنی ہوگی یا نئی درخواست دائر کرنی ہوگی۔