پروفیسر علی خان کو اظہارِ رائے کا حق ،لیکن لڑکیوں پر تبصرہ نہیں کر سکتے: سپریم کورٹ
49
M.U.H
28/05/2025
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کو، جن پر آپریشن سندور کے حوالے سے متنازع سوشل میڈیا پوسٹس کرنے کا الزام ہے، بتایا کہ ان کے اظہارِ رائے کے حق پر کوئی پابندی نہیں، تاہم وہ اپنے خلاف زیرِ تفتیش مقدمات سے متعلق کوئی بھی آن لائن پوسٹ نہیں کر سکتے۔
جسٹس سوریا کانت اور جسٹس دیپنکر دتہ پر مشتمل جزوی کام کرنے والی بنچ نے 21 مئی کو دی گئی عبوری ضمانت کی اس شرط میں فی الحال کسی ترمیم سے انکار کر دیا جس کے تحت پروفیسر کو ان دو آن لائن پوسٹس کے بارے میں کوئی بھی تحریری، زبانی یا سوشل میڈیا پر رائے دینے سے روکا گیا ہے، جو اس وقت تفتیش کا موضوع ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی کہ پروفیسر دہشت گرد حملوں یا ان کے جواب میں بھارتی مسلح افواج کی کارروائیوں پر کوئی رائے عامہ نہ دیں۔بنچ نے عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے ہدایت دی کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم(SIT) آئندہ سماعت پر تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔عدالتِ عظمیٰ نے واضح کیا کہ تفتیش کا موضوع صرف وہ دو ایف آئی آرز ہیں جو پروفیسر کے خلاف درج کی گئی ہیں اور ہریانہ پولیس کو متنبہ کیا کہ وہ تفتیش میں "ادھر ادھر" نہ جائے اور صرف وہی الیکٹرانک آلات طلب کرے جن کی واقعی جانچ ضروری ہو۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہریانہ پولیس قومی انسانی حقوق کمیشن(NHRC) کی جانب سے پروفیسر کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے پر جاری نوٹس کا کیا جواب دیا گیا، اس سے بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔21 مئی کو قومی انسانی حقوق کمیشن نے پروفیسر کی گرفتاری سے متعلق میڈیا رپورٹ کا "از خود نوٹس" لیا تھا۔کمیشن نے نوٹ کیا کہ رپورٹ میں الزامات کا خلاصہ دیا گیا ہے جن کی بنیاد پر گرفتاری عمل میں آئی۔ بادی النظر میں یہ انسانی حقوق اور مذکورہ پروفیسر کی آزادی کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے۔"
اسی روز، یعنی 21 مئی کو، سپریم کورٹ نے پروفیسر کو عبوری ضمانت دی تھی، تاہم ان کے خلاف جاری تفتیش پر حکمِ امتناع جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔عدالت نے ان کے خلاف درج ایف آئی آرز کی تفتیش کے لیے تین رکنی ایس آئی ٹی قائم کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
ہریانہ پولیس نے 18 مئی کو پروفیسر محمودآباد کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب ان کے خلاف دو ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ الزام ہے کہ ان کی آپریشن سندور پر کی گئی متنازع سوشل میڈیا پوسٹس سے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا۔یہ دو ایف آئی آرز — ایک ہریانہ اسٹیٹ کمیشن فار ویمن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ کی شکایت پر، اور دوسری ایک دیہی سرپنچ کی شکایت پر — ضلع سونی پت کے رائے تھانے میں درج کی گئیں۔
پولیس کے مطابق:"کمیشن کی چیئرپرسن کی شکایت پر اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی کے خلاف نیا فوجداری قانون(BNS) کی دفعات 152 (ایسے افعال جو ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد یا سالمیت کے لیے خطرہ بنیں)، 353 (ایسے بیانات جو عوامی فساد کا سبب بنیں)، 79 (عورت کی عصمت پر حملہ کرنے والے دانستہ افعال)، اور 196 (1) (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔"
پروفیسر کی گرفتاری کی متعدد سیاسی جماعتوں اور ماہرینِ تعلیم نے مذمت کی ہے