فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا تاریخی اعلان، میکرون کے فیصلے پر اسرائیل و امریکہ برہم
33
M.U.H
25/07/2025
فرانس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا تاریخی اعلان کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس فیصلے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ میکرون نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے یہ قدم ضروری ہے۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل اور امریکہ نے سخت ردعمل دیا ہے جبکہ فلسطین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
صدر میکرون نے اپنی پوسٹ میں کہا، ’’ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے عوام کے لیے بڑی سطح پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ہمیں حماس کو غیر مسلح کرنا ہوگا، غزہ کو محفوظ بنانا ہوگا اور اسے دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا۔ اور ہمیں فلسطینی ریاست کی تشکیل کو یقینی بنانا ہوگا۔‘‘
اگرچہ فرانس ماضی میں اسرائیل کے قریب رہا ہے اور یہود مخالف واقعات کی مذمت کرتا رہا ہے، تاہم میکرون کا یہ اعلان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں معطل کر دی ہیں اور حماس کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اس وقت دنیا کے 140 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، جن میں یورپی ممالک کی بھی بڑی تعداد شامل ہے لیکن جی-7 ممالک میں سے یہ پہلا موقع ہے کہ کسی رکن نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے میکرون کے فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے اور اس سے غزہ جیسے ایک اور ایرانی حمایت یافتہ گروپ کو تقویت مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایسے حالات میں فلسطینی ریاست اسرائیل کو مٹانے کے لیے ایک نیا لانچ پیڈ بن سکتی ہے۔‘‘
اسی طرح امریکہ نے بھی سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ’’یہ ایک غیر ذمہ دارانہ فیصلہ ہے جو صرف حماس کے بیانیے کو مضبوط کرے گا اور امن کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ 7 اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر طمانچہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی مسلسل مخالفت کرتا آیا ہے۔ فرانس کے اس فیصلے سے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی صف بندی کا آغاز ہو سکتا ہے بلکہ یورپی یونین کے دیگر ممالک پر بھی اس حوالے سے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔