بی جے پی کی سابق ترجمان آرتی ساٹھے جج بنیں،اپوزیشن نے نامزدگی پر سوال اٹھائے
40
M.U.H
06/08/2025
بی جے پی کی سابق ترجمان آرتی ساٹھے کی بامبے ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کرنے سے مہاراشٹر کی سیاست گرم ہو گئی ہے۔ ساٹھے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مہاراشٹر بی جے پی کی سرکاری ترجمان کے طور پر کام کر رہی تھیں، جس کے بعد یہ تنازع مزید گہرا ہو گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شرد پوار کے گروپ کے رہنما روہت پوار نے کہا کہ ایک ایسے شخص کی تقرری جو حکمراں پارٹی کے حق میں ہے جج کے طور پر جمہوریت کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔
این سی پی (ایس پی) کے رہنما روہت پوار نے کہا، "اس طرح کی تقرریوں کے ہندوستانی عدالتی نظام کی غیر جانبداری پر دور رس نتائج ہوں گے۔" انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ایسا نہیں ہے جیسے سیاسی طور پر جڑے لوگوں کو براہ راست جج بنا کر عدلیہ کو سیاسی میدان میں تبدیل کر دیا جائے ۔‘‘
پوار نے مزید کہا، "اختیارات کی علیحدگی کا اصول آئین میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دیا گیا ہے کہ کسی کے پاس طاقت بے قابو نہ ہو، طاقت کی مرکزیت نہ ہو اور چیک اینڈ بیلنس برقرار رہے۔ کیا سیاسی ترجمان کی بطور جج تقرری اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو کمزور نہیں کرتی اور آئین کو تباہ کرنے کی کوشش ہے؟"
شرد پوار گروپ کے رہنما نے مزید سوال کیا، "جب ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تقرر کردہ شخص کا سیاسی پس منظر ہو اور وہ حکمراں جماعت میں کسی عہدے پر فائز ہو، تو کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کا عمل سیاسی تعصب سے متاثر نہیں ہوگا؟ کیا سیاسی شخص کی تقرری انصاف کی فراہمی کے پورے عمل پر سوال نہیں اٹھاتی؟"
روہت پوار نے مزید کہا کہ مقرر کردہ شخص کی اہلیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن ایسے شخص کی تقرری سے عام شہریوں کے اس احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ 'انصاف بغیر کسی تعصب کے کیا جاتا ہے'۔" انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ آرتی ساٹھے کی بامبے ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری پر نظر ثانی کرے اور چیف جسٹس سے رہنمائی طلب کرے۔
دوسری جانب مہاراشٹر بی جے پی میڈیا سیل کے انچارج نوناتھ بنگ نے کہا کہ ’’یہ درست ہے کہ آرتی ساٹھے مہاراشٹر بی جے پی کی ترجمان تھیں، لیکن بمبئی ہائی کورٹ کے جج کے طور پر اپنی تقرری سے قبل انہوں نے پارٹی ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا‘‘۔
بی جے پی کی سابق ریاستی ترجمان ایڈوکیٹ آرتی ارون ساٹھے کو بامبے ہائی کورٹ کی جج کے طور پر تقرری دیے جانے پر مہاراشٹر کانگریس نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ عدلیہ جیسے حساس اور غیرجانبدار ادارے میں براہ راست کسی سیاسی جماعت کے عہدیدار کو مقرر کیا جانا جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ہرش وردھن سپکال نے منگل کو جاری بیان میں کہا کہ آرتی ساٹھے بی جے پی مہاراشٹر کی ریاستی ترجمان رہ چکی ہیں، جن کا نام پارٹی کے ریاستی صدر چندرشیکھر باونکولے کی جانب سے 2 فروری 2023 کو جاری کی گئی ترجمانوں کی فہرست میں شامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی فعال رکن کو براہ راست عدالتی عہدے پر فائز کرنا نہ صرف عدلیہ کی غیرجانبداری کو مجروح کرتا ہے بلکہ اس کے فیصلوں پر عوامی اعتماد کو بھی کمزور کرتا ہے۔
سپکال نے سخت الفاظ میں کہا، ’’یہ جمہوریت کے گلے پر چھری چلانے کے مترادف ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے خودمختار اداروں پر گرفت بڑھتی جا رہی ہے اور اب عدلیہ بھی اسی دائرے میں آتی نظر آ رہی ہے، جو کہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔‘‘
انہوں نے الزام لگایا کہ 2014 سے ملک میں جمہوریت اور آئینی اقدار کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے لے کر تحقیقاتی ایجنسیوں تک، بیشتر ادارے حکومت کی مرضی سے کام کر رہے ہیں۔ عدلیہ کے کئی حالیہ فیصلے بھی شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں، جن کی غیرجانبداری پر سوال اٹھنا فطری ہے۔
سپکال کے مطابق راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت کی منسوخی، چین کے معاملے پر ان کے سوالات پر عدالت کی جانب سے کیے گئے تبصرے، عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کام حکومت سے سوال کرنا ہے اور اگر عدالتیں بھی اس پر روک لگائیں گی تو جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
کانگریس صدر نے یہ بھی نشاندہی کی کہ عدلیہ سے ریٹائر ہونے کے بعد کئی جج حضرات کو گورنر، سفیر، راجیہ سبھا رکن یا اہم اداروں کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا جا رہا ہے، جس سے ادارے کی آزادی پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط مثال قائم کر رہا ہے۔‘‘
سپکال نے مطالبہ کیا کہ عدلیہ کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لیے سخت ضوابط وضع کیے جائیں تاکہ مستقبل میں سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد کی براہ راست تقرریاں روکی جا سکیں۔