ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ: غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور عارضی غیر سیاسی حکومت کی تجویز
13
M.U.H
30/09/2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد قریب دو برس سے جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان خونریز جنگ کو فوری طور پر ختم کرانا ہے۔ منصوبے کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان اگر اتفاق رائے قائم ہو جائے تو فوجی کارروائیاں فی الفور روک دی جائیں گی اور اسی دوران یرغمالیوں کے مرحلہ وار تبادلے کا عمل شروع ہوگا۔
منصوبے کے تحت اسرائیل کو 72 گھنٹے کے اندر اپنے یرغمالیوں، خواہ وہ زندہ ہوں یا ان کے اجساد، واپس مل جائیں گے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل 250 ایسے فلسطینیوں کو رہا کرے گا جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جبکہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں گرفتار 1700 فلسطینیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ شرط رکھی گئی ہے کہ ہر ایک اسرائیلی یرغمالی کی لاش کی واپسی پر 15 فلسطینیوں کی میتیں بھی واپس کی جائیں گی۔
منصوبے میں اسرائیلی فوج کی مکمل واپسی کو ابتدائی شرط نہیں بنایا گیا بلکہ کہا گیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوج ایک متعین لکیر تک پیچھے ہٹے گی اور اس دوران بمباری یا دیگر کارروائیاں روک دی جائیں گی۔ تمام محاذ جمی رہیں گے جب تک کہ مکمل اور مرحلہ وار انخلا کے حالات میسر نہ آ جائیں۔
منصوبے کے مطابق، جب تمام یرغمالی رہا ہو جائیں گے تو حماس کے ان ارکان کو عام معافی دی جائے گی جو ہتھیار ڈال کر پرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے۔ جو ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا اور ایسے ممالک میں جانے دیا جائے گا جو انہیں قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔
ٹرمپ کے 20 نکاتی خاکے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ غزہ کو ایک ’غیر عسکری اور دہشت گردی سے پاک خطہ‘ بنایا جائے گا جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔ اس میں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کو زبردستی بے دخل کیا جائے گا۔ البتہ جو لوگ غزہ سے باہر جانا چاہیں گے، انہیں واپس آنے کا حق حاصل ہوگا۔
منصوبہ کے تحت غزہ کو فوری طور پر انسانی امداد بھیجی جائے گی تاکہ قحط اور بھوک سے مرنے والوں کی حالت بہتر کی جا سکے۔ امداد کی ترسیل اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہوگی اور دونوں فریق اس عمل میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس مقصد کے لیے جنوبی غزہ کے رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولا جائے گا۔
غزہ کی مستقبل کی حکمرانی کے لیے ٹرمپ کے منصوبے میں ایک عارضی غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی تشکیل دینے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ کمیٹی بین الاقوامی ’بورڈ آف پیس‘ کی نگرانی میں کام کرے گی جس کی سربراہی براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس بورڈ میں دیگر عالمی رہنما بھی شامل ہوں گے جن میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا نام بھی تجویز کیا گیا ہے۔
یہ ادارہ نہ صرف غزہ کی تعمیر نو کے لیے مالی وسائل اکٹھے کرے گا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاح کے بعد طویل المدتی انتظامی ڈھانچے کے لیے راستہ بھی ہموار کرے گا۔ ٹرمپ نے اپنی سابقہ تقاریر کی طرح اس منصوبے میں بھی غزہ کو ایک ’’رِویرا‘‘ یا جدید میگا سٹی میں تبدیل کرنے کا خواب پیش کیا ہے۔
منصوبے میں فلسطینی ریاست کے سوال کو مؤخر کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ جب فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کر لے اور غزہ کی تعمیر نو میں پیش رفت ہو جائے تو اس وقت فلسطینی عوام کی خود مختاری اور ریاست کے امکانات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ’بین المذاہب مکالمہ‘ شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں میں برداشت اور پرامن بقائے باہمی کی فضا قائم کی جا سکے۔
بی بی سی اردو کے مطابق، حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ اُن کسی بھی پیشکش پر غور کرنے کے لیے تیار ہے جو جنگ ختم کر سکے مگر فلسطینی مفادات کا تحفظ، اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی اور قبضے کا خاتمہ لازم ہیں۔ اس نے زور دیا کہ ہتھیاروں کے مسئلے پر تبادلۂ خیال صرف اسی سیاسی حل کے تحت ممکن ہوگا جو 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضمانت دے۔ لہٰذا حماس کا مؤقف یہ ہے کہ عارضی یا مرحلہ وار اقدامات قابلِ قبول ہو سکتے ہیں مگر طویل المدتی صلح اور مسلح تنازع کے حل کے لیے وہ اسی بنیادی سیاسی فریم ورک کو شرط کے طور پر برقرار رکھے گا۔