’گزشتہ 6 سالوں میں کتنی مسلم خواتین نے تین طلاق کے خلاف مقدمہ درج کرایا؟‘ سپریم کورٹ نے مرکز سے مانگا جواب
28
M.U.H
29/01/2025
عدالت عظمیٰ نے 29 جنوری (بدھ) کو مرکزی حکومت سے مسلم خواتین کے ذریعہ گزشتہ 6 سالوں میں تین طلاق کے خلاف درج کرائے گئے مجرمانہ معاملوں کی تفصیل طلب کی ہے۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ 2019 میں پاس ’مسلم خواتین (تحفظ شادی حقوق) ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کر کتنے مسلم مردوں نے اپنی بیویوں کو 3 مرتبہ طلاق کہہ کر ان سے رشتہ منقطع کیا ہے؟ ان کے خلاف ملک بھر میں درج ایف آئی آر اور فرد جرم کی تعداد کی تفصیل پیش کرنے کی ہدایت بھی عدالت نے مرکز کو دی ہے۔ علاوہ ازیں مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں تین طلاق سے متعلق زیر التوا معاملوں پر بھی جانکاری پیش کرے۔
آج چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے تین طلاق کے خلاف 2019 میں بنے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرنے والی 12 عرضیوں پر سماعت کر رہی تھی۔ اس دوران بنچ نے مرکز اور دیگر فریقین سے تحریری حلف نامہ پیش کرنے کو کہا ہے۔ بنچ نے اب ان عرضیوں پر آخری سماعت 17 مارچ سے شروع ہونے والے ہفتہ میں مقرر کی ہے۔ کوزیکوڈ واقع مسلم تنظیم ’سمست کیرل جمعیۃ العلماء‘ اس معاملے میں اہم عرضی دہندہ ہے۔
سماعت کے دوران بنچ نے کہا کہ عرضی دہندہ صرف اس روایت کے جرم ہونے کو چیلنج پیش کر رہا ہے اور وہ اس روایت کا دفاع نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس نے اس معاملے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ یہاں کوئی بھی وکیل یہ نہیں کہہ رہے کہ تین طلاق کی روایت درست ہے، لیکن وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا اسے جرم بنایا جا سکتا ہے، جبکہ اس روایت پر پابندی ہے اور ایک بار میں تین طلاق بول کر طلاق نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 2019 میں پاس اس قانون کے تحت طلاق ثلاثہ یعنی تین طلاق کو ناجائز و ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ ایسا کرنے پر مرد کو 3 سال جیل کی سزا کا التزام ہے۔ اس کے باوجود تین طلاق کی روایت ختم نہیں ہوئی ہے۔ کئی ریاستوں میں تین طلاق کے معاملے اب بھی پیش آ رہے ہیں اور کئی مرتبہ مسلم خواتین نے اس کے خلاف شکایت بھی کی ہے۔