نئے خیالات کی مخالفت کے لیے اسلام کی غلط تشریح کی جاتی رہی ہے:اجیت ڈوبھال
28
M.U.H
03/02/2025
نئی دہلی : ماضی میں بھی محدود فائدے اور دبدبہ کے لیے اسلام کی غلط تشریح کی جاتی رہی ،اسےغلط انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے، اسلام کو مطلب ہی غلط بیان کیا جاتا رہا،جس کا مقصد نئے خیالات اور سوچ کی راہ کو تنگ کرنا ہوتا ہے،مگر ہمیں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ کچھ معاشرے جمود کا شکار ہو گئے کیونکہ وہاں نئے خیالات کو جگہ نہیں دی گئی -
ان خیالات کا اظہار ملک کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈو بھال نے کیا جو بین الاقوامی کتابی میلہ میں خسرو فاونڈیشن کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں خطاب کررہے تھے۔سیاسیات کے معروف اسکالر ترکی نژاد امریکی ڈاکٹر احمد ٹی کورو کی مشہور کتاب "اسلام، آمریت اور پسماندگی: ایک عالمی اور تاریخی موازنہ" کے ہندی ایڈیشن کا اتوار کو راجدھانی کے پرگتی میدان میں اجرا ہوا ۔ جس میں ڈاکٹر کورو اس موقع پر خصوصی طور پر موجود تھے جبکہ این ایس اے اجیت ڈوبھال اور ممتاز صحافی ایم جے اکبر نے بھی اس میں شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
،انہوں نے ایم جے اکبر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اکبر صاحب نے پرنٹنگ مشین کی مخالفت کا ذکر کیا ۔یہ ایک بڑی مثال ہے کیونکہ اس وقت ایک طبقہ کسی ایجاد کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اور اس میں اکثریت مذہبی رہنماوں کی تھی دور خلافت تھا جب مذہبی قیادت اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لیے ہر نئے آئیڈیا اور نظرئیے کی مخالفت کررہی تھی۔انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کسی بھی طبقہ یا قوم کو پستی میں دھکیل سکتا ہے ۔این ایس اے اجیت ڈوبھال نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کورو نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنے تجربات اور ۔تحقیق کو پیش کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نئی سوچ اور خیالات کو مقبول بنانے میں کتابیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ساتھ ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بھی کتابوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔
این ایس اے ڈوبھال نے بھی ڈاکٹر کورو کے اس نظرئیے کی تائید کی ہے اور ان دونوں نظریات کو مسترد کیا کہ نوآبادیاتی حکومت نے مسلم ممالک کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی، لیکن وہ یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ یورپی سامراج کے آغاز سے پہلے ہی مسلم معاشرے زوال کا شکار تھے۔ ان کے مطابق آمریت اور مذہبی قیادت کے اتحاد نے مسلم معاشروں کو ترقی سے روکا اور یہ اثر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں ایم جے اکبر نے ددور خلافت میں پرنٹنگ پریس کی مخالفت کا ذکر کیا جواس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب کی آڑ میں سائنس اور ٹکنا لوجی کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔انہوں نے اس بات پرزور دیا کہ خود احتسابی لازمی ہے خواہ وہ انفرادی ہو،معاشرے کی بنیاد پر ہو یا پھر سیاست کی سطح پر ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم ممالک میں ایسی تبدیلیوں کو صدیوں کے بعد قبول کیا گیا جن میں ڈیموکریسی بھی ہے اور دیگر خیالات بھی ۔کیونکہ اس کی اہمیت کو آحر میں تسلیم کرنا پڑا۔مگر اہم بات یہ ہے کہ جب وقت ضائع ہوتا ہے تو ترقی اور تبدیلی میں تاخیر ہوتی ہے ۔جبکہ آج کے دور میں تبدیلی کی رفتار بہت اہم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں اور معاشروں کی طرف سے خود شناسی بہت ضروری ہے۔ مذہب یا ریاست کی وفاداری پر سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے دماغ کو قید نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اگر آپ خود کا جائزہ نہیں لیتے ہیں تو آپ وقت اور سمت کھو دیتے ہیں۔ اگر بہت دیر سے کیا جائے تو آپ پیچھے رہ جاتے ہیں۔کسی بھی سوچ یا نظریے کا مقابلہ ہونا ضروری ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم معاشرے کی اس طرح کی متضاد ذہنیت کو کیسے حل کرتے ہیں۔
این ایس اے ڈوبھال نے صاحب کتاب ڈاکٹر احمد ٹی کرو کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ حکومت اور مذہب کے تعلق کا رجحان، اسلام کے لیے منفرد نہیں ہے۔ تاریخ اسلام کے مختلف مراحل میں بھی، شاید اس میں تبدیلی آئی ۔این ایس اے نے کہا کہ اگر ہم مذہب اور سیاست کے رشتہ کی بات کریں تو اسلام میں یہ کی بات اس کا مسئلہ یہ ہے کہ تنازعات فطری ہوتے ہیں، کسی بھی سوچ یا نظریے کا مسابقتی ہونا ضروری ہے۔پہلا تنازع خود مردوں کے درمیان ہوتا ہے۔. آپ کے مسابقتی عقیدوں، خیالات، ضروریات اور خواہشات کے درمیان تصادم ہوتا ہے۔مختلف معاشروں میں ریاست اور مذہب کے رشتے رہے ہیں۔ مشرقی ثقافتوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن مشرقی معاشروں نے اس کا حل تلاش کیا اور ہندو مت میں یہ ایک شاسترارتھ کے طور پر ابھرا -جنہیں ڈائیلاگ کے ساتھ حل کیا گیا ۔اہم بات یہ ہے کہ معاشرے کے تنازعات کو ڈائیلاگ کے ساتھ ہی دور کیا جاتا ہے ۔ این ایس اے ڈوبھال نے ڈاکٹر کورو کی کتاب کا ہندی ایڈیشن شائع کرنے پر مبارک باد دی اور کہا کہ یہ ایک اچھی پہل ہے ۔
آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹر کورو نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ اسلام فطری طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے قرون وسطیٰ میں اسلامی تہذیب نے سائنسی تحقیق اور اختراع کو فروغ دیا۔یہ وہ دور تھا جب مسلم معاشروں نے سائنس، ریاضی اور ٹکنالوجی میں گراں قدر خدمات انجام دیں، جب کہ یورپ تاریک دور میں جدوجہد کر رہا تھا۔تاہم کتاب کا بنیادی سوال یہ ہے کہ تاریخ میں اتنی شاندار شراکت کے باوجود، آج بہت سے طبقات سائنس میں پیچھے کیوں ہیں؟ آج بھی معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی جدوجہد میں مسلم اکثریتی قومیں سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی و اقتصادی ترقی میں کیوں پیچھے ہیں؟ ڈاکٹر کورو نے اپنی تقریر میں کہا کہ مسلمان اپنے ورثے کی معاشی طاقت اور سائنسی بلندیوں کو بھول چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان کے طور پر میں نے اپنی کتاب میں 200 میں سے 14 مسلم اکثریتی ممالک کا جائزہ لیا ہے اور یہ مسئلہ ہر جگہ موجود ہے - مسلم تاریخ کا اصل مسئلہ علماء اور ریاست کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔ بارہویں صدی کے بعد یورپ میں مذہب اور حکومت میں فرق کیا جانے لگا اور یہی ان کی ترقی کا سبب بنا۔ آج پرانے زمانے کی طرح حکومت اور علمائے کرام کے درمیان اتحاد بننا شروع ہو گیا ہے۔ اس کا حل سب کے لیے مساوی شہری حقوق میں مضمر ہے۔
ڈاکٹر کورو نے اس کتاب میں مسلمانوں کے اس زوال کے لیے اسلام کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے، بلکہ اسے آمرانہ حکومتوں اور مذہبی اداروں کے درمیان گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دیکھتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ان آمرانہ ڈھانچوں نے فکری اور سائنسی ترقی کو روک دیا ہے، جس سے مسلم معاشروں کو پسماندہ رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر کورو نے اپنی کتاب میں یورپی تاریخ اور مسلم حکمرانی کے مختلف ادوار کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کے حالات نے دونوں تہذیبوں کی سمت کا تعین کیا۔
اسلام کے تناظر میں ایم جےاکبر نے کہا کہ تصوف عملی ہے کیونکہ یہ ہمیں ایک ایسا رشتہ سکھاتا ہے جو دشمنی کا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ جدیدیت سے ہم آہنگ ہونے اور قومی ریاست کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر کورو کو پاکستان پر توجہ مرکوز کرنے کی تجویز بھی دی، جو اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح مذہب کو کسی ملک کو تقسیم کرنے اور ادارہ جاتی اور نسلی تنازعات کو جنم دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ فاؤنڈیشن کتابوں کے ذریعے اسلام سے منسلک جھوٹی روایتوں کو چیلنج کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ فاؤنڈیشن بچوں کے لیے کتابوں کی ایک سیریز لانے پر کام کر رہی ہے۔