نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے فروری 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کے ایک مقدمے میں 11 افراد کو آتش زنی اور چوری کے الزامات سے ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج پُلاستیہ پرماچلا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے دو پولیس گواہ، جنہوں نے ملزمان کی شناخت کی، مصنوعی چشم دید گواہ معلوم ہوتے ہیں۔
استغاثہ کا دعویٰ تھا کہ یہ افراد 24 اور 25 فروری 2020 کی درمیانی رات دکانوں میں چوری، توڑ پھوڑ اور آگ زنی میں ملوث تھے۔ عدالت نے اپنے 14 مئی کے حکم میں کہا کہ اس مقدمے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہجوم میں شامل ملزمان کی صحیح شناخت کی جا سکے، لیکن اس سلسلے میں استغاثہ صرف نامکمل اور بکھرے ہوئے شواہد ہی پیش کر سکا۔
دو پولیس گواہ — اسسٹنٹ سب انسپکٹر جہانگیر اور ونویر — نے جنہیں متعلقہ پولیس اسٹیشن میں تعینات بتایا گیا، دس ماہ بعد ملزمان کی تصاویر دیکھ کر شناخت کی کوشش کی۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ گواہ واقعی موقع پر موجود تھے اور ملزمان کو پہچانتے تھے، تو انہوں نے اتنے طویل عرصے تک خاموشی کیوں اختیار کی؟
عدالت نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر کو معلوم تھا کہ یہ پولیس اہلکار موقع پر ڈیوٹی پر تھے، اس کے باوجود ان کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے گئے۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ: جب ملزمان پہلے ہی گرفتار کیے جا چکے تھے، تب ان کی تصاویر گواہ نمبر 9 کو دکھانا ایک غیر فطری عمل ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ڈبلیو9 کو بعد میں مصنوعی گواہ بنا کر شناخت کے لیے استعمال کیا گیا۔
عدالت نے ایک اور گواہ اسلم کے بیان پر بھی شبہ ظاہر کیا، جس نے عدالت میں پہلی بار ملزمان کی شناخت کی، حالانکہ وہ ان کو پہلے سے جانتا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اس کے بیان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تمام شواہد اور گواہوں کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، عدالت نے فیصلہ دیا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات کو شک سے بالاتر ثابت نہیں کر سکا۔
نتیجتاً، عدالت نے درج ذیل افراد کو بری کر دیا: انکت چودھری، سُمِت، ، پپو ، وجے ، آشیش کمار ، سوربھ کوشک ، بھوپیندر ، شکتی سنگھ ، سچن کمار ، راہول اور یوگیش ۔ عدالت کے اس فیصلے کو دہلی فسادات کے مقدمات میں شفاف عدالتی عمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں کئی مقدمات میں شواہد کی کمی اور کمزور تفتیش سامنے آ چکی ہے۔