جے این یو طلبہ یونین انتخابات: بائیں بازو کی تقسیم کے درمیان 70 فیصد ووٹنگ، نتائج 28 اپریل کو
18
M.U.H
26/04/2025
نئی دہلی: راجدھانی دہلی کی معروف جامعہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں جمعہ کو طلبہ یونین (جے این یو ایس یو) کے انتخابات بالآخر مکمل ہو گئے۔ اس بار انتخابات تاخیر کا شکار رہے مگر جمعہ کو کیمپس میں ووٹنگ کے دوران طلبہ نے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً 70 فیصد ٹرن آؤٹ درج کرایا۔ ووٹنگ کا عمل دو مرحلوں میں مکمل ہوا، جو صبح 9 بجے سے دوپہر ایک بجے تک اور پھر دوپہر 2:30 سے شام 5:30 بجے تک جاری رہا۔ کیمپس میں 17 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے۔
انتخابات کے نتائج 28 اپریل کو جاری کیے جائیں گے، جن کے بعد مرکزی پینل کے لیے صدر، نائب صدر، جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری منتخب کیے جائیں گے، جب کہ مختلف اسکولوں کے لیے 44 کونسلرز کا انتخاب ہوگا۔
یونیورسٹی کا انتخابی عمل عام طور پر مارچ میں مکمل ہو جاتا ہے، مگر متعدد رکاوٹوں کے باعث اس میں تاخیر ہوئی۔ سب سے بڑی تبدیلی بائیں بازو کی جماعتوں میں دراڑ ہے، جس کی وجہ سے روایتی اتحاد ٹوٹ گیا۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کے ساتھ اتحاد کیا ہے، جب کہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی)، برسا امبیڈکر پھولے اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (بی اے پی ایس اے)، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (اے آئی ایس ایف) اور پروگریسیو اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (پی ایس اے) نے الگ الگ امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
اے آئی ایس اے-ڈی ایس ایف اتحاد نے نتیش کمار کو صدر، منیشا کو نائب صدر، منتحیٰ فاطمہ کو جنرل سکریٹری اور نریش کمار کو جوائنٹ سکریٹری کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ دوسری جانب ایف ایف آئی، بی اے پی ایس اے-اے آئی ایس ایف-پی ایس اے کے اتحاد نے چودھری طیّبہ احمد کو صدارتی امیدوار، سنتوش کمار کو نائب صدر، رام نواس گرجر کو جنرل سکریٹری اور نگم کماری کو جوائنٹ سکریٹری کے لیے نامزد کیا ہے۔
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے بھی پورا پینل میدان میں اتارا ہے، جس میں شکھا سواراج صدر، نٹّو گوتم نائب صدر، کنال رائے جنرل سکریٹری اور ویبھو مینا جوائنٹ سکریٹری کے امیدوار ہیں۔
طلبہ کے درمیان اس بار شدید تذبذب پایا جا رہا ہے۔ اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز (ایس ایل ایل اینڈ سی ایس) سے ماسٹرز کی طالبہ رانی کماری کا کہنا ہے کہ ’عمومی طور پر جے این یو میں بائیں بازو کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے، مگر اس بار تقسیم کی وجہ سے ووٹ بٹ سکتے ہیں اور اے بی وی پی کو فائدہ مل سکتا ہے۔‘‘
ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’’اس بار اسکول جنرل باڈی میٹنگز تک نہیں ہوئیں۔ میں نے پانچ انتخابات دیکھے ہیں، مگر اس بار شفافیت کم محسوس ہوئی۔‘‘
پی ایچ ڈی کی طالبہ دھاتری کے مطابق ’’اے آئی ایس اے نے گزشتہ برسوں میں کئی مثبت تبدیلیاں کیں، جیسے بند بارک ہاسٹل کو کھلوانا اور طلبہ کے خلاف تحقیقات رکوانا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اے آئی ایس اے-ڈی ایس ایف کو اچھا موقع حاصل ہے۔‘‘ نتائج کے حوالے سے کیمپس میں بے چینی ہے اور سب کی نظریں اب 28 اپریل پر مرکوز ہیں۔