جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے میں تاخیر ہوئی تو سپریم کورٹ جائیں گے: فاروق عبداللہ
16
M.U.H
22/06/2025
اننت ناگ: نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے ہفتہ کو کہا کہ اگر جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے میں مزید تاخیر ہوئی تو ان کی جماعت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ فاروق عبداللہ نے جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے کوکیر ناگ علاقے میں پارٹی کارکنوں کی ایک میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’انتخابات کے بعد لوگ چاہتے تھے کہ ان کے مسائل فوراً حل ہوں، لیکن ریاستی درجہ کی بحالی نہ ہونا ہمیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔
لوگوں کی کئی مانگیں ہیں، جیسے کہ وہ چاہتے ہیں کہ (نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی) الطاف کالو وزیر بنیں، لیکن جب تک ریاستی درجہ بحال نہیں ہوگا، یہ کیسے ممکن ہے‘‘؟ انہوں نے مزید کہا ’’ہم جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن اگر مرکز نے اس میں زیادہ وقت لیا، تو ہمارے پاس سپریم کورٹ جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ مجھے امید ہے کہ جب ریاستی درجہ بحال ہوگا، تو ہمیں ہمارے تمام حقوق واپس ملیں گے‘‘۔
اسرائیل-ایران تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کو جنگ روکنے کی عقل دے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسرائیل اور ایران دونوں کو عقل دے اور (ڈونالڈ) ٹرمپ کو بھی عقل دے، تاکہ وہ جنگ نہیں بلکہ امن کی بات کریں۔ مسائل کا حل صرف پُرامن طریقے سے ہی ممکن ہے، اور امن کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔
اس سے قبل فاروق عبداللہ نے پارٹی کارکنوں سے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے 22 اپریل کے پہلگام حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’حملہ آور اتنی بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ڈرون جیسی ٹیکنالوجی کی موجودگی کے باوجود بیسرن تک پہنچنے اور حملہ کرنے میں کامیاب رہے‘‘۔
فاروق عبداللہ نے سوال اٹھایا ’’مرکز نے کہا تھا کہ یہاں سے دہشت گردی ختم کر دی گئی ہے، تو پھر وہ (پہلگام کے حملہ آور) کہاں سے آئے؟ ہمارے پاس اتنی فورسز، اتنے ڈرون وغیرہ موجود ہیں، تو وہ چاروں کہاں سے آئے‘‘؟ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’ہم اب تک پہلگام حملے کے حملہ آوروں کو تلاش نہیں کر پائے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک طاقتور قوم ہیں، ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے، لیکن ہم ان چاروں کو نہیں ڈھونڈ سکے‘‘۔ قابل ذکر ہے کہ پہلگام کے اس دہشت گرد حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح شامل تھے۔