زبان کے تنازع پر شرد پوار کا درمیانی راستے کا مشورہ، کہا- 'نہ تھوپنا درست، نہ نظر انداز کرنا'
22
M.U.H
27/06/2025
مہاراشٹر میں اسکولوں میں ہندی زبان کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے پر جاری تنازع نے سیاسی گرما گرمی پیدا کر دی ہے۔ اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کے سربراہ شرد پوار نے درمیانی راستے کی تجویز دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی جماعتوں یعنی پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی بنانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس سے چھوٹے بچوں پر زبان کا غیر ضروری بوجھ پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ملنی چاہیے تاکہ وہ مضبوط تعلیمی بنیاد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
شرد پوار نے کہا، ’’اگر کوئی بچہ اپنی مادری زبان سے دور ہو جائے اور محض ایک نئی زبان سیکھنے پر مجبور ہو جائے، تو یہ تعلیمی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مشورہ دیا کہ پانچویں جماعت کے بعد اگر والدین چاہیں، تو بچے کو ہندی یا کوئی اور زبان سکھانے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
ریاست میں یہ تنازع اس وقت بڑھا جب حکومت نے اسکولوں میں ہندی کو تیسری لازمی زبان بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے خلاف اپوزیشن جماعتیں متحد ہو گئی ہیں۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ’’ہم ہندی کے خلاف نہیں لیکن اسے تھوپنے کا مطلب ایک خاص پارٹی کی زبان کو مسلط کرنا ہے۔‘‘
ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے بھی اس فیصلے کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کی پارٹی ریاست بھر میں مراٹھی زبان کے حق میں دستخطی مہم چلا رہی ہے۔ دوسری جانب نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے وضاحت دی ہے کہ ’’جمہوریت میں کوئی چیز تھوپی نہیں جاتی۔ حکومت نے اب ہندی کو لازمی کے بجائے اختیاری زبان قرار دے دیا ہے۔‘‘
ریاستی وزیر تعلیم دادا جی بھوسے نے اس معاملے پر راج ٹھاکرے سے ملاقات کی، تاہم راج نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ چندرشیکھر باونکولے، جو کہ وزیر ہیں، نے بھی کہا کہ ’’ریاست میں مراٹھی زبان لازمی رہے گی لیکن ہندی ایک اختیاری زبان ہو سکتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ہندی کو لازمی زبان بنانے کے فیصلے کو لے کر بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ عوامی دباؤ کے بعد فڈنویس حکومت نے یو ٹرن لیتے ہوئے ہندی کو لازمی زبان کے بجائے تیسری اختیاری زبان کے طور پر شامل کر کے ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں اب بھی سراپا احتجاج ہیں۔