تہران: وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ہرجنگ تبدیلیاں لاتی ہے اور یہ تبدیلیاں ڈپلومیسی میں بھی نظرآتی ہیں۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ہم اپنی ڈپلومیسی کی تنظیم نو کررہے ہیں اور یقینا ہماری ڈپلومیسی میں کچھ تبدیلیاں ہوں گی۔
اس بات کا اعلان وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جمعرات کی رات ایران ٹی وی کے نیوز ٹاک پروگرام میں کیا ہے ۔
نیوزٹاک پروگرام میں وزیر خارجہ کی گفتگو کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
جب فریق مقابل مذاکرات کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے میں نا امید ہوگیا تو اس نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ جرائم پیشہ جعلی حکومت کو ایران پر حملے کی کھلی چھوٹ دی ۔ ہم نے اپنے سبھی بیانات اور مکا تبات میں اس اقدام کو ڈپلومیسی اور مذاکرات سے خیانت تعبیر کیا ہے۔
اس کے باوجود ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے یہ راستہ طے کیا، کیونکہ ہم نے دنیا والوں پر حجت تمام کردی کہ ایران نے پر امن راہ حل تک پہنچنے کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔
یہ مقابل فریق تھا جس نے مذاکرات کے راستے کو جنگ کے راستے سے تبدیل کیا۔
کوئی وزیر خارجہ ایسا نہیں ہے جس سے میں نے گفتگو کی ہو اور اس نے ہمیں حق پر نہ مانا ہو یا کم سے کم خاموش نہ ہوگیا ہو۔
ہمیں فون کرکے کہتے تھے جنگ بند کیجیئے، ڈپلومیسی کی طرف واپس آئیے میں ان کے جواب میں کہتا تھا کہ کیا مطلب؟ ہم تو ڈپلومیسی کے بیچ میں تھے، جنگ تو انھوں نے شروع کی ہے۔
تقریبا جنگ کے پہلے اور دوسرے دن سے ہی یورپی ملکوں نے رابطہ شروع کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تحمل سے کام لیں اور ڈپلومیسی کی طرف واپس ہوں۔ لیکن ہم نے کہا کہ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ ہم ڈپلومیسی کے درمیان تھے کہ ہمارے خلاف جارحیت شروع کردی گئی
اس بار ماضی کے برخلاف علاقائی ملکوں نے ایسی حمایت کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ او آئی سی کے رکن 57 ملکوں نے قرار داد پاس کرکے، صیہونی حکومت کے حملوں کی مذمت اور ایران کے عوام کے ساتھ یک جہتی کا اعلان کیا۔ یہ قرار داد اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ او آئی اسی وزرائے خارجہ کے دوسرے دن کے اجلاس میں آخری لمحات میں ایران پر امریکی حملے کے بعد دو شقوں کا اضافہ کیا گیا جن میں امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی۔
اس کے علاوہ خلیج فارس تعاون کونسل نے شروع میں ہی ان حملوں کی مذمت کی شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں نے بھی ان حملوں کی مذمت اور ہماری حمایت کی۔ یہ حمایتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ایرانی عوام کی حقانیت عالمی سطح پر ثابت ہوچکی ہے ۔
یہ صیہونی حکومت حکومت تھی جس نے آپریشن بند کرنے کی درخواست کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی پالیسیوں کے مطابق اعلان کیا کہ اگر حملے بند ہوجائیں تو ہم بھی اپنے آپریشن روک دیں گے۔ نتیجے میں کارروائياں رک گئيں۔
ہمار آخری وار بہت موثر اور فیصلہ کن تھے ۔ ایران کے وقت سے صبح 7 بجکر 30 منٹ سے ہم نے آپریشن روک دیئے اور جنگ بندی شروع ہوئی۔
صیہونی حکومت نے لاچار ہونے کے بعد جارحیت بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ہم نے بھی جب دیکھا کہ انھوں نے جارحیت بند کردی ہے تو اپنے آپریشن روک دیئے
ایران لبنان نہیں ہے، اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم فورا ٹھوس جواب دیں گے
ڈپلومیٹک تبادلہ خیالات، مختلف ملکوں کے ساتھ گفتگو اور پیغامات کے تبادلے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب رہی یہ بات کہ ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے یا نہیں، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس کا انحصار ہمارے ملی مفادات پر ہے۔
صراحت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنا طے نہیں پایا ہے۔ نہ کوئی اتفاق رائے ہوا ہے، نہ وعدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بات کی گئی ہے۔
محکمہ ایٹمی توانائی کے رفقا ہماری ایٹمی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔
اس مقاومت سے پہلے کے حالات کی طرف واپسی نہیں ہوسکتی۔ اب ہمارے موقف اور مطالبات نئے ہیں اور ہماری منطق بھی نئی ہے ۔ ہماری بعض تنصیبات احتمالا تباہ ہوگئی ہیں جس نے نئی حقیقتیں جنم دی ہیں اوراس حوالے سے بھی ہمارے کچھ مطالبات ہیں۔
جو بل پارلیمنٹ، مجلس شورائے اسلامی نے پاس کیا ہے اور آج نگہبان کونسل سے منظوری کے بعد قانون میں تبدیل ہوگیا ہے، ہمارے لئے لازم الاجرا ہے اوربیشک اس پر عمل ہوگا۔
جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی، یا دوسرے الفاظ میں گروسی نے جو رپورٹ تیار کی، وہ اس بات کا باعث بنی کہ یورپی ملکوں نے بورڈ آف گورنرس کے اجلاس میں قرار داد پیش کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ اور اس کے بعد پاس کی جانے والی قرار داد نےایران کی ایٹمی تنیصبات پر حملے کے حالات پیدا کئے۔ اوریہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ مسٹر گروسی نے اپنی رپورٹ کی تیاری میں انصاف اور صداقت پر عمل نہیں کیا۔
نہ صرف یہ کہ جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نےان حملوں کی مذمت نہیں کی بلکہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل بھی جن کو این پی ٹی اور جوہری توانائی سے پرامن استفادے کا ضامن ہونا چاہئے، ان حملوں کی مذمت پر تیار نہیں ہوئے۔
اب جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ ہمارے روابط کی نوعیت جدید ہوگی۔
تین یورپی ممالک جو ابھی جے سی پی او اے کے رکن ہیں، یعنی امریکا جامع ایٹمی معاہدے سے نکل گیا ہے لیکن وہ ابھی نہیں نکلے ہیں اور اس میں باقی ہیں، جو ممالک جے سی پی او اے کے رکن ہیں وہ ایران میں زیرو انرچمنٹ کی بات نہیں کرسکتے، اس لئے کہ جامع ایٹمی معاہدے میں،ایک معینہ اور خاص فیصد تک یورینیئم کی افزودگی، قبول کی گئی ہے۔
ایران کا ایٹمی مسئلہ، اسنیپ بیک میکانزم کے فعال ہونے سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوجائے گا جبکہ جںگ شروع کرکے، پہلے ہی اس کودشوار اور پیچیدہ کیا جا چکا ہے۔
فی الحال گروسی کو تہران آنے کی اجازت دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ انسپکٹروں کے بارے میں بھی جائزہ لیا جائے گا، اگر پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون کے مطابق ہوا تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
نقصان بہت ہوا ہے لیکن یہ بات کہ انسپکٹرس آئیں اور اس کی دقیق اطلاع حاصل کریں، اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے اور فیصلے کو پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔
ہم علاقے کے عرب ملکوں کو پیغام نہیں دینا چاہتے تھے بلکہ یہ پیغام امریکا کے لئے تھا۔ جب حملہ ہوا تو قطر والے ناراض ہوئے۔ فطری بات ہے۔ خلیج فارس کے رکن دیگر ممالک بھی ناراض ہوئے۔ لیکن ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ امریکیوں کا معاملہ آپ سے الگ ہے۔ دوسرے ہی دن دوحا میں قطر کے ساتھ اعلان یک جہتی کے لئے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کا اجلاس ہوا۔
میں نے خلیج فارس تعاون کونسل کے سبھی چھے ملکوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا، پیغام بھیجا، ٹیلیفون کیا اور ان سے کہا کہ قطر کے ساتھ یک جہتی کے جس بیان پر آپ دستخط کررہے ہیں، اس کے نیچے میرا نام بھی لکھ دیجئے۔ ہم بھی قطر کے ساتھ یک جہتی رکھتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا دعوی ہے کہ ہم نے امریکیوں سے کہا ہے کہ ان اڈوں کا استعمال ایران کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ہم نے ان سے کہا کہ ہم دستاویزی ثبوت سے ثابت کریں گے کہ ایران کے خلاف ان اڈوں کا استعمال ہوا ہے ممکن ہے کہ آپ کو اس کی اطلاع نہ ہو۔
ہم ایک بار پھر زور دے کر کہتے ہیں کہ ہماری پالیسی پڑوسیوں بالخصوص خلیج فارس ریجن کے ملکوں کے ساتھ روابط کے فروغ پر استوا ہے ۔