اے ایم یو میں فیس اضافہ کے خلاف طلبہ کا احتجاج؛ پولیس کارروائی اور انتظامیہ کے رویے پر سیاسی و سماجی حلقوں کی مذمت
17
M.U.H
14/08/2025
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں فیس میں 36 سے 42 فیصد تک کے حالیہ اضافے کے خلاف طلبہ کا احتجاج بدھ کو پانچویں روز بھی جاری رہا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ کمزور معاشی پس منظر رکھنے والے نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو شدید متاثر کرے گا۔ احتجاج میں اس وقت شدت آئی جب طلبہ نے ضلع کلیکٹریٹ تک مارچ کیا اور وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کا پتلا نذرِ آتش کیا۔
رپورٹس کے مطابق بیچلر آف لائبریری سائنس (بی لائب) کورس کی سالانہ فیس گزشتہ برس 16 ہزار روپے تھی، جو اب بڑھا کر 22 ہزار روپے سے زائد کر دی گئی ہے۔ آل انڈیا جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی جے کے ایس اے) نے اس فیصلے کو من مانا اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر کھوہامی نے کہا کہ فیس میں 30 سے 40 فیصد تک اضافہ غریب اور پسماندہ طبقات کے طلبہ کے لیے مزید بوجھ بن گیا ہے۔
وہیں، اے ایم یو پروکٹر وسیم علی نے تصدیق کی کہ فیس میں اضافہ 500 سے 1500 روپے فی کورس کے درمیان ہے اور اس کی بنیادی وجہ انفراسٹرکچر کی بہتری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مختلف کمیٹیوں کی مشاورت سے کیا گیا۔ تاہم طلبہ تنظیموں کا موقف ہے کہ انفراسٹرکچر کے نام پر یہ اضافہ طلبہ کے معاشی حالات کو نظرانداز کرتا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو یومیہ اخراجات پورے کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
فیس میں کمی کے علاوہ طلبہ گزشتہ آٹھ برس سے معطل اسٹوڈنٹس یونین انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ سینئر افسران کو ہٹانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے، جن پر موجودہ بحران کو غلط انداز میں سنبھالنے کا الزام ہے۔
گزشتہ جمعہ کو احتجاجی طلبہ نے دھرنا مقام پر اجتماعی جمعہ کی نماز ادا کی، اس دوران پولیس نے کارروائی کی۔ طلبہ کا الزام ہے کہ یہ کارروائی غیر ضروری اور غیر متناسب تھی۔ اس واقعے پر متعدد اپوزیشن اراکین پارلیمان نے وائس چانسلر کو خط لکھ کر وضاحت اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
کانگریس کے رکن پارلیمان عمران مسعود نے فیس اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ معاملہ پارلیمان میں اٹھائیں گے۔ سماج وادی پارٹی کے ضیاء الرحمن برق اور اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ کانگریس کے سینئر رہنما سلمان خورشید نے کہا کہ فیس میں بھاری اضافہ حاشیے پر موجود طبقے کو سستی تعلیم کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے، جبکہ پرامن احتجاج روکنا طلبہ کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
وہیں، آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) نے پولیس ایکشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ تنظیم نے یونیورسٹی ایگزیکٹو کونسل کی خاموشی پر بھی گہری تشویش ظاہر کی۔
یوتھ کانگریس، سوشلسٹ یوتھ آرگنائزیشنز اور اسٹوڈنٹس یونینز نے ضلع کلیکٹریٹ میں احتجاج کرتے ہوئے پروکٹر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ یوتھ کانگریس کے صوبائی سیکریٹری راجہ بھیا نے انتباہ دیا کہ اگر 15 اگست تک مطالبات پورے نہ ہوئے تو 16 اگست کو بڑے پیمانے پر اے ایم یو مارچ کیا جائے گا۔
سماجوادی پارٹی اسٹوڈنٹس ونگ کے رہنماؤں نے بھی کہا کہ ضلع کے دیگر کالجوں کے طلبہ کو احتجاج میں شامل کیا جائے گا۔ طلبہ رہنما عمران پٹھان نے کہا کہ یہ محض آغاز ہے، اگر انتظامیہ نے سنجیدگی نہ دکھائی تو احتجاج وسیع تر ہوگا۔
سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے بھی اے ایم یو طلبہ کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسے اپنے ’یومِ احتجاج‘ پروگرام میں شامل کریں گے۔ ایس کے ایم نے کیمپس میں پولیس کارروائی کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
ماہرین تعلیم اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی فیس نہ صرف غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کو متاثر کرے گی بلکہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں عدم مساوات کو بھی بڑھائے گی۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ جب تک فیس اضافہ واپس نہیں لیا جاتا اور طلبہ یونین انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا، احتجاج جاری رہے گا۔ یہ بحران نہ صرف ایک تعلیمی ادارے بلکہ وسیع تر سطح پر اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں اور ان کی سماجی اثرات پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔