عمر خالد اور شرجیل امام کو عدالت سے نہیں ملی راحت، دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت دینے سے کیا انکار
22
M.U.H
02/09/2025
دہلی ہائی کورٹ نے آج عمر خالد اور شرجیل امام کی ضمانت عرضی خارج کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ یعنی یو اے پی اے معاملہ میں 2 ستمبر کو طلبا لیڈر شرجیل امام اور خالد عمر کے ساتھ ساتھ دیگر 8 ملزمین کی ضمانت عرضی کو نامنظور کر دیا ہے۔ 2020 میں ہوئے دہلی فسادات سے جڑے یو اے پی اے کیس میں یہ ضمانت عرضی داخل کی گئی تھی۔
جسٹس نوین چاؤلا اور جسٹس شالندر کور کی بنچ نے سبھی فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد 9 جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ آج عمر خالد اور شرجیل امام کے ساتھ ساتھ محمد سلیم خان، شفا الرحمن، اطہر خان، میران حیدر، عبدالخالد سیفی، شاداب احمد اور گلفشاں فاطمہ کی ضمانت عرضیوں پر فیصلہ سنایا جانا تھا اور سبھی عرضیوں کو عدالت کے ذریعہ خارج کر دیا گیا۔ شرجیل امام کو پولیس نے 25 اگست 2020 کو گرفتار کیا تھا، جبکہ عمر خالد کی گرفتاری پولیس کے ذریعہ 14 ستمبر 2020 کو ہوئی تھی۔ دیگر ملزمین کو بھی الگ الگ اوقات پر گرفتار کیا گیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق فریق استغاثہ نے ضمانت عرضی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ یہ صرف اور صرف فسادات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا معاملہ ہے جہاں فسادات کی سازش پہلے سے ہی ایک خوفناک مقصد اور منصوبہ بندی کے ساتھ بنائی گئی تھی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی سطح پر ہندوستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش تھی اور صرف طویل قید کسی بھی طرح ضمانت کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ فروری 2020 میں ہوئے فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی، جبکہ 700 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ تشدد شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل سٹیزن شپ رجسٹر (این آر سی) کے خلاف مظاہروں کے دوران پھیلا تھا۔ ان فسادات میں ہی شرجیل امام، خالد سیفی، گلفشاں فاطمہ اور دیگر ملزمین کی ضمانت عرضیاں 2022 سے دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا تھیں اور وقت وقت پر مختلف بنچوں نے ان پر سماعت کی۔