مولانا کلب جواد پر حملہ ملت کے شعور پر حملہ ہے، خاموشی جرم سے کم نہیں: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
9
M.U.H
16/10/2025
حجۃالاسلام مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے لکھنؤ میں قائد ملت حجۃالاسلام مولانا سید کلبِ جواد نقوی پر ہونے والے بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ یہ حملہ صرف ایک شخص پر نہیں، بلکہ پوری ملتِ جعفریہ کے شعور، ایمان اور وحدت پر حملہ ہے۔
مکمل بیان حسب ذیل ہے:
باسمہ سبحانہ
یہ حملہ قائدِ ملت جناب مولانا کلبِ جواد صاحب پر نہیں، بلکہ قوم کے شعور پر حملہ ہے
ہم شدید رنج و افسوس کے ساتھ ہندوستان کے علمی و دینی مرکز لکھنؤ میں معروف عالمِ دین، مجلسِ علماء ہند کے جنرل سکریٹری اور قائدِ ملت، مولانا سید کلبِ جواد نقوی صاحب پر ہونے والے بزدلانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
یہ حملہ محض ایک شخص پر نہیں، بلکہ علم و ایمان، محراب و منبر اور ملت کے شعور پر حملہ ہے۔
یہ واقعہ دراصل اُن شکست خوردہ ذہنیتوں کا مظہر ہے جو ملت کے درمیان اختلاف، بدگمانی اور انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔
مگر ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ بزدلانہ حملہ قوم اور تحریکِ وقف کی بیداری کی روشنائی بنے گا، نہ کہ خوف کا سایہ۔ جس طرح جنابِ کلبِ جواد صاحب ہمیشہ حق کے محاذ پر ڈٹے رہے، اسی طرح وہ وقف خوروں کے خلاف اپنی تحریک کو مزید قوت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب — چاہے کسی بھی ادارے یا تنظیم سے وابستہ ہوں — ایک صف، ایک زبان اور ایک دل بن کر کھڑے ہوں، کیونکہ دشمن ہماری آپسی کمزوریوں اور اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ہی اتنی جرات کر پایا ہے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
علمائے کرام، حوزہ ہائے علمیہ اور دانشورانِ ملت سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں، ورنہ کسی شہر میں کوئی عالم محفوظ نہیں رہے گا۔
تاریخ نے بارہا دیکھا ہے کہ جب علمائے کرام اور افاضلِ ملت متحد ہوئے، تو باطل کے ایوان لرز اٹھے۔
آج پھر وہی لمحہ درپیش ہے۔
یہ وقت خاموشی یا گڑے مردے اکھاڑنے کا نہیں، بلکہ باطل کے مقابلے میں اتحاد و آگاہی کے پرچم بلند کرنے کا ہے۔
یہ وقت ناراضگیوں کے خاتمے اور فاصلے مٹانے کا ہے، تاکہ امت دشمنوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بن جائے۔
یہ بزدلانہ حملہ نہ صرف ایک مجاہد، انتھک اور قابلِ قدر عالم کے وقار و شرف پر حملہ ہے، بلکہ ملت کے علم و شعور اور معاشرتی انصاف پر بھی کاری وار ہے۔
یہ سوال فطری ہے کہ اتنی بڑی جسارت کے بعد علمائے کرام کہاں ہیں؟ اور ادارے کیوں خاموش ہیں؟
تنظیم المکاتب کے جنرل سکریٹری جناب صفی حیدر صاحب قبلہ نے جس طرح دو ٹوک الفاظ میں اس حملے کی مذمت کی، ویسی ہی جراتِ اظہار دیگر بزرگ علماء سے بھی متوقع تھی — مگر وہ کیوں خاموش ہیں؟ کیا مصلحت ہے؟
کیا اب علم و منبر کے وارث صرف خاموشی کو شعار بنائیں گے؟
کیا ہماری خاموشی یہ پیغام دے گی کہ جان و عزت پر حملے قابلِ قبول ہیں؟
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام ادارے، مدارسِ علمیہ، یونیورسٹیاں اور مذہبی تنظیمیں فوری طور پر اپنا واضح موقف پیش کریں، تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ تشیع کی قیادت چند جذباتی جوانوں تک محدود ہے۔
آج ان پر حملہ ہوا ہے، کل کسی اور پر ہو سکتا ہے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک انتہائی خطرناک انتباہ ہے کہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ظلم کے خلاف اٹھنے والا ہاتھ بھی بے بس ہو جائے گا۔
کتنے ہی اختلافات طرزِ عمل کو لے کر ہوں، کتنے ہی اعتراضات سابقہ امور یا سیاسی موقف پر ہوں — مگر یہ وقت اُن باتوں کا نہیں ہے۔
جو علمائے کرام اور مدارسِ علمیہ کے ذمے دار خود کو ان چار دیواریوں میں محفوظ سمجھ رہے ہیں، وہ اپنی باری کا انتظار کریں۔
اسی کے ساتھ قوم کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے علماء کے پیچھے متحد ہو۔
یاد رکھیں: آج کی خاموشی کل کی شکست ہے، اور آج کی بیداری کل کی فتح۔
قوم سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے علماء کی حرمت، خدمت اور حفاظت کو ایمانی فریضہ سمجھا جائے، کیونکہ جو قوم اپنے رہنماؤں کی قدر کھو دیتی ہے، وہ اپنی سمت بھی کھو دیتی ہے۔
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دے، اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
آخر میں ہم تمام علمائے کرام، طلابِ عظام اور ملتِ جعفریہ کے طبقات سے اپیل کرتے ہیں کہ
یہ وقت اختلاف کا نہیں، اتحاد کا ہے؛
مقاطَعے کا نہیں، رابطے کا ہے؛
تنقید کا نہیں، تعمیر کا ہے۔
تنقید کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن فی الحال قیادت و رہبری سے متعلق اپنی آراء اور تجاویز کو مکتوب صورت میں محفوظ رکھیں، مگر اس وقت سب کو ایک موقف اور ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا۔
اگر ہم آج ایک نہ ہوئے، تو کل شاید کوئی ہمارے ساتھ نہ ہو۔
ہماری دعا ہے کہ خداوندِ متعال مولانا کلبِ جواد صاحب کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے،
اور قوم و ملت کو وہ بصیرت عطا کرے جو دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا دے۔
یاد رکھئے: وحدت ہی میں نجات ہے، بیداری ہی بقا کا ذریعہ ہے۔
وحدت و بیداری کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم اس "درد" کو دوبارہ جگائیں جو ہمیشہ چارہ گر رہا ہے۔
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں، اپنا گھر لگے ہے مجھے۔
امید ہے کہ اس نازک مرحلے پر تمام اختلافات کو بھلا کر علمائے کرام، بزرگانِ دین اور دانشورانِ ملت ایک ساتھ ضرور آئیں گے — ان شاء اللہ۔