امریکی وزارت خزانہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانے کے سلسلے میں ایک ایرانی تیل کے نیٹ ورک کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزارت خزانہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانے کے سلسلے میں ایک ایرانی تیل کے نیٹ ورک کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران کے فوجی شعبے کی حمایت کرنے والے تیل کے نیٹ ورک کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
اس بیان میں 14 افراد، 24 کمپنیوں، 10 جہازوں اور 7 طیاروں کے نام شامل ہیں جو پابندیوں کی سیاہ فہرست میں ڈالے گئے ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بسنت نے دعویٰ کیا کہ آج کا اقدام ایران کے مالی وسائل کو روکنے، اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کو کمزور کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا تسلسل ہے۔
وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ دفتر کنٹرول اثاثہ جات خارجی (OFAC) نے چھ مزید جہازوں کو ہدف بنایا ہے اور ایران کے آئل ٹینکر بیڑے کے خلاف پابندیوں کو وسعت دی ہے، جو ایران اپنی تیل کی برآمدات کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
امریکی ادارے نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اب تک 170 سے زائد جہازوں کو پابندیوں کا نشانہ بنا چکی ہے، جس سے ایرانی تیل برآمد کنندگان کے اخراجات میں اضافہ اور فی بیرل آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ OFAC نے ایرانی فضائی کمپنی ماہان ایئر کے خلاف بھی نئی کارروائیاں کی ہیں، جو پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے ساتھ مل کر خطے میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کو اسلحہ اور وسائل فراہم کرتی ہے۔
امریکی وزارت خزانہ کے مطابق، یہ اقدام فروری اور مئی میں لگائی گئی پابندیوں کے تسلسل میں ہے، جو ایران کی فوجی تیل برآمدات کے کلیدی عناصر کو نشانہ بناتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پابندیوں کی فہرست میں شامل افراد مختلف ممالک جیسے سنگاپور، ایران اور کینیڈا کے شہری ہیں، جبکہ کمپنیوں کا تعلق امارات، یونان، سنگاپور، لیبریا، جرمنی، پاناما، بھارت اور ایران سے ہے۔
امریکی وزارت خزانہ کے مطابق، پابندیوں کا شکار جہاز پاناما، کومور، کیمرون اور گامبیا کے پرچم تلے چل رہے تھے، جبکہ سات طیارے ماہان ایئر سے وابستگی کے باعث اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔