میرٹھ یونیورسٹی: سوال نامہ میں شدت پسند تنظیموں کے ساتھ جوڑا گیا آر ایس ایس کا نام، ہنگامہ کے بعد پروفیسر نے مانگی معافی
24
M.U.H
06/04/2025
میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی (سی سی ایس یو) میں پالیٹیکل سائنس کے امتحان میں آر ایس ایس کے حوالے سے کچھ قابل اعتراض سوال پوچھے گئے، جس کے بعد ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ متنازعہ سوالوں نے اب تنازعہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سوالات میں آر ایس ایس کو نکسلیوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں میں کافی غصہ اور ناراضگی دیکھی گئی۔
واضح ہو کہ 2 اپریل کو منعقد امتحان میں سوال نمبر 87 اور 97 میں آر ایس ایس کو جس انداز اور جس طریقے سے پیش کیا گیا اس سے آر ایس ایس نظریات کے طلبا میں کافی ناراضگی دیکھی گئی۔ ایک سوال میں آر ایس ایس کو مذہبی اور نسلی شناخت کی سیاست کے عروج سے جوڑا گیا، جبکہ دوسرے سوال میں کچھ جوہری گروپوں کی فہرست کا ذکر تھا جس میں آر ایس ایس کے علاوہ نکسلیوں، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور دَل خالصا جیسی عسکریت پسند اور بنیاد پرست تنظیموں کے نام شامل تھے۔
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے اس معاملے کے خلاف یونیورسٹی احاطے میں وائس چانسلر کے سامنے زبردست احتجاج کیا اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ شدید احتجاج کے بعد یونیورسٹی نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس نے سوال نامہ تیار کرنے والی پالیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر سیما پنوار کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر یونیورسٹی نے پروفیسر پنوار کو مستقبل میں کسی بھی امتحانی کام میں شامل ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس تنازعہ کی وجہ سے یونیورسٹی کے امتحانی نظام کی خامیاں بھی ظاہر ہو گئی ہیں۔ موجودہ ںظام کے مطابق سوال نامہ ماہرین کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں اور ان کے 3 سے 4 سیٹ بنائے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس یونیورسٹی میں سوال ناموں کا امتحان سے قبل کوئی جائزہ نہیں لیا جاتا ہے اور ماہرین پر اعتبار کرتے ہوئے ان سوال ناموں کا استعمال ڈائریکٹ امتحان میں ہوتا ہے۔
اس پورے معاملے میں یونیورسٹی کے رجسٹرار دھیریندر ورما نے بتایا کہ ’’سیما پنوار میرٹھ کالج کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے نصاب کے مطابق پیپر تیار کیا تھا۔ اس تنازعہ کے بعد انہوں نے تحریری طور پر معافی بھی مانگ لی ہے۔ انہوں نے معافی مانگتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو وہ اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘‘