مظفرنگر میں وقف بل پر کالی پٹی باندھنے والوں کو نوٹس، 300 افراد عدالت میں طلب
16
M.U.H
07/04/2025
اترپردیش کے ضلع مظفرنگر میں وقف (ترمیمی) بل کے خلاف علامتی احتجاج کرنے والے 300 افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 اپریل کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان افراد کو دو، دو لاکھ روپے کے شخصی مچلکے بھی بھرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہ نوٹسز ان لوگوں کو بھیجے گئے ہیں جنہوں نے 28 مارچ کو رمضان کے آخری جمعے کے موقع پر مختلف مساجد میں نماز کے دوران اپنی بانہوں پر کالی پٹیاں باندھ کر خاموش احتجاج کیا تھا۔ احتجاج کا مقصد حالیہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت تھا، جسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری مل چکی ہے اور صدر جمہوریہ کی جانب سے بھی اس پر دستخط ہو چکے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ذرائع سے مظاہرین کی شناخت کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ اب تک تقریباً 300 افراد کو نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں، جب کہ مزید کی شناخت جاری ہے۔
ایس پی سٹی، ستینارائن پرجاپت کے مطابق، ان نوٹسز کا مقصد قانون و نظم کی صورت حال کو قابو میں رکھنا ہے۔ ان کے مطابق، احتجاج کے دوران کسی قسم کی نعرے بازی یا تشدد سامنے نہیں آیا، مگر قانون کے مطابق اجازت کے بغیر کسی بھی قسم کا اجتماع یا علامتی مظاہرہ قابل گرفت ہو سکتا ہے۔
یہ نوٹسز شہر کے مجسٹریٹ وکاس کشیپ کی جانب سے پولیس رپورٹ کی بنیاد پر جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مذکورہ افراد 16 اپریل کو عدالت میں پیش ہوں اور یہ یقین دہانی کرائیں کہ وہ آئندہ ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوں گے، جس سے امن و قانون کی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ وقف ترمیمی بل کو لے کر کئی مسلم تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ان کے مطابق، یہ بل وقف جائیدادوں کے انتظام میں مداخلت کے مترادف ہے اور اس سے اقلیتی حقوق متاثر ہوں گے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل کا مقصد وقف جائیدادوں کے انتظام و انصرام میں شفافیت لانا، ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا اور قانونی پیچیدگیوں کو ختم کرنا ہے۔
ان نوٹسز پور علاقے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوری ملک میں محض خاموش احتجاج، وہ بھی کالی پٹی باندھنے جیسے علامتی انداز میں، اس قدر سخت کارروائی کا جواز فراہم کرتا ہے؟ وہ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کیا اختلاف رائے کی یہ صورت بھی اب ناقابلِ برداشت سمجھی جا رہی ہے؟