حکومت وقف کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتی: بی جے پی صدر جے پی نڈا
24
M.U.H
06/04/2025
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ حکومت وقف بورڈ کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ حکومت کا مقصد صرف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کا انتظام کرنے والے لوگ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں
اتوار کو بی جے پی کے یوم تاسیس کے موقع پر پارٹی ہیڈکوارٹر میں پرچم کشائی کے بعد پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر نڈا نے کہا، "آج ہم بی جے پی کا 46 واں یوم تاسیس منا رہے ہیں۔ میری طرف سے اور پارٹی کے کروڑوں کارکنوں کی طرف سے، میں آپ سب کو یوم تاسیس کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر شیاما پرساد مکھرجی نے پنڈت جواہر لال نہرو کی کابینہ سے اس یقین سے متاثر ہو کر استعفیٰ دیا تھا کہ ایک ملک دو قانون اور دو آئین کے تحت نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا، "ہمارا سفر 1951 میں شروع ہوا، اور 1953 میں انہوں نے ستیہ گرہ میں حصہ لیا اور سری نگر جیل میں پراسرار حالات میں انتقال کر گئے۔ ان کی موت کی تحقیقات کے لیے ان کی والدہ کی اپیل کے باوجود، مسٹر نہرو نے ان کی درخواست کو نظر انداز کیا۔ تاہم، ہمارے سرشار کارکنوں نے لڑائی کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔" انہوں نے کہا، "ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری سیاسی تحریک کا سفر 1951 میں بھارتیہ جن سنگھ کے طور پر شروع ہوا، سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے، ہم نے 1977 میں کچھ عرصے کے لیے جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1980 میں اپنے نظریاتی اختلافات کے سبب ہم نے اس تحریک کو 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کے نام سے آگے بڑھایا۔" وقف ترمیمی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ہم وقف بورڈ کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کا انتظام کرنے والے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں اور قائم کردہ قواعد پر عمل کریں۔ وقف بورڈ کے اثاثے اور فنڈز مسلم کمیونٹی کے لیے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور روزگار کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے وقف کیے جائیں گے۔" انہوں نے کہا کہ شاہ بانو کیس میں راجیو گاندھی حکومت مسلم کمیونٹی کے کچھ طبقوں کے دباؤ کے تحت خوشامد کی سیاست کے سامنے جھک گئی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے مسلم خواتین کی آزادی کے مطالبے کے باوجود فیصلہ کن اقدام کرنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک نے پہلے ہی تین طلاق کی روایت کو ختم کر دیا تھا، پھر بھی یہ ہندوستان میں جاری رہی۔ انہوں نے کہا کہ آخرکار وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے تین طلاق کو ختم کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا، اس طرح مسلم خواتین کو بااختیار اور خود مختار بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے کئی تاریخی فیصلے کئے ہیں، جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا، "1987-88 میں پالم پور کنونشن میں اڈوانی جی کی صدارت میں ایک قرارداد پاس کی گئی تھی کہ ہم رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کریں گے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد آج ایک عظیم الشان رام مندر تعمیر کیا گیا ہے۔ 1965 میں پنڈت دین دیال اپادھیائے جی نے انٹیگرل ازم پر ایک تقریر کی۔"انہوں نے کہا کہ "اس وقت ہمارا مذاق اڑایا گیا تھا کیونکہ یہ تصور سے باہر تھا کہ کارل مارکس کی عینک سے دیکھنے والے لوگ انٹگرل ہویمنزم کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور کانگریس کا بتدریج نظریاتی زوال شروع ہو چکا تھا"۔ انہوں نے کہا، "بی جے پی نے انٹیگرل ہیومنزم کو آگے بڑھایا ہے اور مسٹر مودی کی قیادت میں، انتودیا کو "سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا پریاس، سب کا وشواس" کی شکل میں آگے بڑھایا گیا ہے۔ ہم ووٹ کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں گئے، ہم نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے نظریے پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا، "بی جے پی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی نظریاتی بنیاد کو برقرار رکھا ہے اور اسی کی طاقت پر آگے بڑھ رہی ہے۔ ہم اپنے آپ کو ملک کی تعمیر نو میں ایک سیاسی تحریک کے طور پر اس سفر میں شامل کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کسی فرد یا خصوصی مفادات کو ترجیح دیے بغیر قوم کو ہر چیز پر مقدم رکھا ہے۔