نشی کانت دوبے کے بیان سے خود کو بی جے پی نے الگ کیا،کانگریس کی تنقید
20
M.U.H
20/04/2025
نئی دہلی: بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا سے متعلق بیان پر سیاسی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ نشی کانت دوبے نے 19 اپریل (ہفتہ) کو کہا تھا کہ اگر قانون سازی کا کام سپریم کورٹ ہی کرے گی تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دینا چاہیے۔
ان کے اس بیان پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید ردعمل دیا اور کہا کہ یہ نہ صرف عدلیہ کی ساکھ پر حملہ ہے بلکہ پارلیمنٹ اور آئین کی روح پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ یہ بیان سامنے آتے ہی سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ اپوزیشن خاص طور پر کانگریس نے بی جے پی کے خلاف محاذ کھول دیا۔ ادھر بی جے پی کے صدر نے وضاحت دی کہ پارٹی کا نشی کانت دوبے کے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔
بی جے پی نے ہفتہ کے روز اپنے ارکان پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کی جانب سے سپریم کورٹ پر کی گئی تنقید سے خود کو مکمل طور پر الگ کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ بیانات ان کی ذاتی رائے ہیں، اور پارٹی ان سے متفق نہیں۔
پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے ان بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکمراں جماعت عدلیہ کو جمہوریت کا ایک ناقابلِ تقسیم حصہ تسلیم کرتی ہے اور ہمیشہ اس کا احترام کرتی آئی ہے۔ جے پی نڈا نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا: "بی جے پی کا ارکان پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کی طرف سے عدلیہ اور چیف جسٹس پر دیے گئے بیانات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔
بی جے پی نہ تو ان سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی کبھی ایسے بیانات کی حمایت کرتی ہے۔ بی جے پی ان بیانات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے ان دونوں رہنماؤں اور دیگر پارٹی ارکان کو ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ اس طرح کے بیانات سے گریز کریں۔
جے پی نڈا نے کہا کہ: بی جے پی نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے اور اس کی تجاویز و احکامات کو بخوشی قبول کیا ہے، کیونکہ بطور پارٹی ہمارا یقین ہے کہ تمام عدالتیں، بشمول سپریم کورٹ، ہماری جمہوریت کا لازمی جزو ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: عدلیہ آئین کے تحفظ کے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس سے قبل، بی جے پی کے سینئر اور چوتھی بار منتخب ہونے والے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے، جو لوک سبھا میں کافی متحرک تصور کیے جاتے ہیں، نے سپریم کورٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ: اگر قانون سازی سپریم کورٹ کو ہی کرنی ہے تو پھر پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہیے۔
انہوں نے چیف جسٹس پر بھی تنقیدی جملے کسے، اور الزام عائد کیا کہ: چیف جسٹس کھنہ ملک میں خانہ جنگی کے ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی کے ایک اور سینئر رہنما اور یوپی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما نے بھی سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: کوئی بھی پارلیمنٹ یا صدرِ جمہوریہ کو ہدایات جاری نہیں کر سکتا۔
بی جے پی کی وضاحت پر کانگریس کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے بھارت کے چیف جسٹس پر کی گئی توہین آمیز تبصروں سے بی جے پی کے سبکدوش ہونے والے صدر کی لاتعلقی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں۔
جے رام رمیش نے بی جے پی صدر جے پی نڈا کے اس بیان پر طنز کرتے ہوئے کہا، یہ وضاحت محض ڈیمیج کنٹرول (نقصان کی تلافی) کی کوشش ہے، اور اس سے کوئی بیوقوف نہیں بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا،یہ سیاسی منافقت کی مکمل مثال ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب بی جے پی کا ایک اہم اور بااثر رکن مسلسل عدلیہ پر غیر مناسب تبصرے کر رہا ہے، تو پارٹی صدر خاموش کیوں ہیں؟
کیا بی جے پی ایسے بیانات کی حمایت کرتی ہے؟ اگر آئین پر ایسے متواتر حملے وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموش منظوری کے بغیر ہو رہے ہیں تو وہ اس رکن پارلیمنٹ کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کر رہے؟ کیا نڈا جی نے نشی کانت دوبے کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا؟ نشی کانت دوبے کا معاملہ اب محض ایک بیان تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک بڑی آئینی بحث کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
اس بحث میں آئین، اس کی تشریح، اور اس میں درج مختلف اداروں کی حدود و اختیارات کو ازسرنو بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کے ذریعے سماجی انصاف، انفرادی آزادی اور آئینی اقدار کی حفاظت کر رہا ہے، تو دوسری طرف کچھ سیاسی بیانات عدلیہ کے کردار پر سوال اٹھا کر اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔