وقف ترمیمی بل وقف املاک کو تباہ کرنے اور ہڑپنے کی سازش,ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
15
M.U.H
09/03/2025
وجے واڑہ: حکومت کی نظر میں مسلمانوں کی بے وقعتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کے خلاف جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو 5 کروڑ مسلمانوں کے ای میل، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام اہم مرکزی و ریاستی مسلم جماعتوں اور اہم افراد کی جے پی سی میں نمائندگی اور ترمیمی بل کے ایک ایک شق پر مدلل گفتگو اور تحریری دستاویزات جمع کرنے کے باوجود حکومت کے موقف میں تبدیلی آنے کے بجائے اسے مزید سخت اور متنازعہ بنادیا گیا۔
یہاں منعقدہ ایک دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملکوں میں کسی بھی قانون یا بل کو مقننہ میں پیش کرنے سے قبل ان لوگوں سے مشاورت کی جاتی ہے جو اس کے اصل اسٹیک ہولڈرس ہوتے ہیں ( یعنی جن سے متعلق مجوزہ قانون یا بل ہوتا ہے)۔ تاہم ا س حکومت کا رویہ اول روز سے تاناشاہی پر مبنی رہا ہے۔ تین زرعی قوانین پارلیمنٹ سے منظور کئے گئے لیکن کسانوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ کسانوں کے منظم احتجاج نے بالآخر حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا ۔
وقف قانون میں اس سے پیشتر جتنی بار بھی ترمیمات ہوئیں، مسلمانوں کے ارباب حل وعقد سے نہ صرف مشورہ کیا گیا بلکہ ان کی مدلل آراء و تجاویز کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا۔ تاہم اس بار پارلیمنٹ میں بل پیش ہونے سے قبل مسلمانوں کے ارباب حل و عقد سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا اور جب بل کو پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو اس پر 31ممبران کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنادی گئی۔ البتہ حکمراں جماعت کی اکثریت پر مبنی جے پی سی نے سوائے لیپا پوتی کرنے اور بل کو مزید سخت بنانے کے کوئی اور کام نہیں کیا۔
مولانا فضل الرحیم نے کہا کہ مسلمانوں کی مدلل آراء اور معقول تجاویز نہ صرف رد کردی گئیں بلکہ کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کے ممبران نے جو 44 ترمیمات پیش کی تھیں انہیں بھی مستردکردیا گیا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی حلیف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے بھی خصوصی ملاقات کرکے انہیں وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے مدلل موقف سے واقف کرایا تھا۔ اسی مناسبت سے تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ، ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلی اور ایک قد آور سیاسی رہنما شری چندرا بابو نائیڈو سے بورڈ کے ایک اعلی سطحی وفد نے جس کی قیادت بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانامحمد فضل الرحیم مجددی نے کی تھی، وجے واڑہ آکر ملاقات کی اور وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے مدلل اعتراضات سے واقف کروایا۔ اسی دوران پورےملک میں اور بطور خاص ریاست آندھرا پردیش میں بھی مسلم جماعتوں نے بڑے بڑے احتجاجی جلسے منعقد کئے اور وقف ترمیمی بل کی پرزور مخالفت کی۔
ان سب کے باوجود مسلمانوں کے مدلل اعتراضات کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور این ڈی اے حکومت وقف املاک کو ہڑپنے اور برباد کرنے کے اپنے مذموم ایجنڈے پر پوری طرح گامزن ہے۔ سخت افسوس ہے کہ بی جے پی کے اس فرقہ وارانہ ایجنڈے کااین ڈی اے میں شامل اس کی حلیف پارٹیاں بھی ساتھ دے رہی ہیں جو خود کو سیکولر اور انصاف پسند کہتی ہیں اور مسلمانوں کا بھی بھرپور ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ مسلمان وقف ترمیمی بل کو اپنے خلاف ایک اعلان جنگ سمجھتے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ ظاہر ہے بی جے پی کی سیاست تو فرقہ وارانہ منافرت اور لڑاؤ اور حکومت کرو کے ذریعہ ووٹ پولارائزیشن کے ایجنڈے پر چلتی ہے۔ اس کی حلیف سیاسی پارٹیوں کو بہرحال یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس حد تک اس کا ساتھ دیں گی۔
ان حالات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، تمام دینی و ملی جماعتیں اور ملک کے تمام انصاف پسند لوگ ایک بار پھر سیکولر سیاسی پارٹیوں، این ڈی اے کی حلیف جماعتوں اور ملک کے ضمیر پر دستک دینے کے لئے ملک کی پارلیمنٹ اور مختلف اہم مقامات پربڑے دھرنوں کا اہتمام کررہے ہیں۔ یہ دھرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہوسکتا ہے برف کچھ پگھلے اور این ڈی اے میں شامل حلیف کا ضمیر بیدار ہوجائے ۔