ہمارےاردو زبان و ادب نے دیگر زبانو ں کے مقابل بہت کم عرصہ میں ایک طویل مسافت طے کی ہے۔ جو چار سے پانچ صدی کے دورانیہ سے زیادہ پر محیط و بسیط ہے۔اس کے انداز حسن قبول اور ہر دلعزیزیت اپنے ایک خاص نکتہ ارتکاز پرتدریجی طور سے دائمی ا ستمرار کی صورت مرحلہ وار پیش رفت کرتی رہی ہے۔اس کی خاص وجہ اس کے دامن میں پائی جانے والی وسعت ہے۔یہ زبان اپنے اندر کسی طرح کے ادبی، ثقافتی و تہذیبی افتراق پر یقین نہیں رکھتی۔یہی اس زبان کی وسعت پذیری کی سب سے اہم وجہ ہے۔اس زبان کے جغرافیہ حدودمیں سکونت پذیر ادب سے تعلق رکھنے والی تمام تراصناف سخن اپنا ایک خاص مقام اور کلیدی اہمیت و حیثیت رکھتی ہیں۔خاص کر اردو شعریات اس زبان کا ایک اہم حصہ ہے۔اردو ادب کی ابتدائی شاعری سے لے کر موجودہ عہد کے شاعری نےاپنے بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ایک نئے رجحان ساز راستوں کو ہموار کیا ہے، اور ہماری اردوشعریات نے بہت سی تحریکات و نظریات کے اثر ونفوذ کو نہ صرف قبول کیا بلکہ جدید سے جدید تر علامات و استعارات کی قبائیں بھی تراشیں اور اپنے عصری لفظیات کے جدید تصرفات سے معنوی جہات کے نو بہ نو افق بھی روشن کئے۔
میں یہاں پراردو زبان و ادب کی قدیم شعری روایات کو معرض بحث نہیں لانا چاہتابلکہ میرا موضوع گفتگو معاصر عہد کی جدیدآمیز شاعری سے عبارت عمیر منظر کا’’ راجندر را منچندا بانی‘‘کا مونوگراف ہے۔یہ مونوگراف’’قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان دہلی‘‘ سے شائع ہوا ہے۔ یہ مونوگراف اردو زبان کے جدید شاعر ــ’’راجندر منچند ابانی‘‘ کی مجموعی ادبی تخلیقات پر مشتمل ہے ۔جو عمیر منظر کا ایک گرانقدر ادبی کارنامہ ہے۔اس مونوگراف میں عمیر منظر نے ’’بانی‘‘ کی سوانح حیات بھی ضبط تحریر کی ہے۔جسے پڑھنے کے بعد قاری کو بانی کی زندگی سے متعلق بہت سی دلچسپ معلومات تک رسائی یقینی ہے۔اور جہاں تک بانی کی ادبی اہمیت کی بات ہے تو اس کا اندازہ عمیر منظر کے ’’ابتدیہ‘‘ کے اس تحریری اقتباس سے کرسکتے ہیں۔اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’بحیثیت جدید غزل گو بانی کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے، لیکن بانی کی شاعری کے بارے میں ابھی تک کوئی ایسا تفصیلی مطالعہ ہمارے سامنے نہیں آیا جس سے ان کی قدر و قیمت اور مرتبے کا معروضی انداز میں تعین کیا جاسکے۔‘‘
عمیر منظر کے اس اقتباس سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ،اس لئے کہ ’’بانی‘‘ ہماری جدید اردو شاعری کا ایک ایسا نام ہے جس پر مسلسل کچھ نہ کچھ لکھا جارہا ہے۔لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ’’بانی ‘‘ کی تفصیل پر ابھی اجمال کا ہی گمان ہوتا ہے۔عمیر منظر نے اس کتاب کی درجہ بندی مختلف عناوین کے تحت کی ہے۔اس کتاب کا پہلا عنوان’’سوانح اور شخصیت ‘‘ دوسرا عنوان ’’بانی کی غزل گوئی سے متعلق ہے۔یہ عنوان ’’بانی‘‘ کی شعری لیاقت اور ان کی ذہنی تجدد آمیزی کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔عمیق حنفی بانی کی غزل گوئی سے متعلق کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں۔
’’بانی کو اس صدی کی چھٹی دہائی کے بہترین اور اہم ترین غزل گویوں میں شمار کرنے سے مجھے کوئی مصلحت ، کوئی تکلف اور کوئی خوف باز نہیں رکھ سکتا۔‘‘
(حرف معتبر ص 10)
مجھے بھی اس بات کا احساس ہے کہ راجندر منچندا بانی کو وہ شہر ت اور مقبولیت نہیں ملی وہ جس کے حقدار تھے۔لیکن بانی کی غزلیں اردوادب کے مشہور ناقدین کی وسعت امکان سے باہر نہیں تھیں ،اس لئے بزرگ نقاد نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بڑے کشادہ دلی کے ساتھ ضرور کیا ہے۔اس کے تمام شواہد اس کتاب میں ضبط تحریر کئے گئے ہیں۔1970 کے بعد جدیدشعرا کی جو صف بندی کی گئی ہے اس میں راجندر منچندا بانی کا نام بھی شامل ہے۔اس کا اعتراف خود گوپی چند نارانگ نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے،اور وہ مضمون پاکستان کے ایک معروف جریدہ ’’فنون ‘‘ لاہور میں شائع ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی ،شمس الرحمٰن فاروقی،پروفیسر عتیق اللہ وغیرہ نے بھی بانی کی غزلوں کی علامتوں پر ایک الگ زوایہ انفراد سے گفتگو فرمائی ہے،اور خاص کر شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مقبول ترین رسالے ’’شب خون‘‘ میں ’’بانی‘‘ کی بہت سی غزلوں کی اشاعت بھی فرمائی ہے۔میں اپنی بات کی مزید توثیق کے لئے بانی کی مختلف غزلوں میں سے ایک غزل کاتذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو ’’شب خون ‘‘ میں( مارچ، اپریل 1974)کے شمارے میں شائع ہوئی تھے اُسے آپ بھی ملاحظہ کریں۔
صبح کی پہلی دعا سے آشنا ہوتا ہوا
ایک سناٹا ہے مانوس صدا ہوتا ہوا
جاتے موسم کی عجب تصویرہے چاروں طرف
درمیاں اس کے ہے اک پتا ہرا ہوتا ہوا
اتنی آگاہی تو ہے میں بڑھ رہاہوں کس طرف
یہ نہیں معلوم کس سے ہوں جدا ہوتا ہوا
اک نوا آہستہ آہستہ فنا ہوتی ہوئی
ایک حرف صد طلب چپ چپ ادا ہوتا ہوا
دیکھ میں اپنی جگہ سے اک قدم سر کا نہیں
دیکھ تیرا ہی نشانہ ہے خطا ہوتا ہوا
اک نظر ، امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی
ایک منظر ، سوپرت ، یکسر نیا ہوتا ہوا
بڑھ رہا ہے کون اپنا راستہ لیتے ہوئے
سست ہم راہوں سے چپکے سے خفا ہوتا ہوا
بانی کی یہ پوری غزل اپنا ایک الگ طرز اسلوب کی نمائندگی کررہی ہے،ان کا یہ اسلوب بڑ دلچسپ ہے ۔جس میں لہجہ کا بانکپن اور لفظوں کا خوبصورت امتزاج ایک نیا رنگ پیدا کررہا ہے۔اور اس غزل کے متون میں انسانی نفسیات اور اس سے متصادم ہونے والےمتغائز احساسات و جذبات کے مختلف کیفیات اس کے معنی کے مختلف جہات کی دریافت کررہے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کے معنوی تنوع اور ترفع میں ایک حیرت و استعجاب کی کیفیت کو جنم دے رہے ہے۔شاید یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے بانی کی غزلوں کا اپنا ایک الگ رنگ ہے،اور اس غزل کا ہر شعر انسان کے اجتماعی شعور کی عکاسی کرنے کے باوجود اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ان کی بیشتر غزلیںکچھ اس طرح کے جدید رنگ و آہنگ سے عبارت ہیں۔لیکن ان کی غزلوں میں پائی جانے والی رومانی کیفیت میں ہیجان انگیزیزی کے عناصر بڑا توازن پایاجاتا ہے۔اس بات کی طرف خود شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے ۔یہ اقتباس آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
’’بانی کو محبوب کا ایسا وجود قبول کرنے میں تامل تھا جو انسانی شخصیت نہ رکھتا ہو ، محض رومانی یا محض جسمانی ہو ، بانی کے یہاں جسم کے تذکرے میں ایک مہذب بے باکی ہے ، جو ہمارے زمانے میں کم شاعروں کے حصہ میں آئی ہے۔بے باکی جذبے کی ہے اور تہذیب استعارے کی۔‘‘
ان کی مجموعی غزلوں پر آئندہ کسی مضمون میں تفصیل سے گفتگو کی جائے گی ۔چونکہ میں عمیر منظر کے اس مونوگراف پر گفتگو کررہا ہوں اس لئے میں اپنے ایک دائرہ کار میں ہی رہ کر اپنے معروضات کے اظہار کا پابند ہوں۔اس مونوگراف کا تیسرا عنوان ’’بانی‘‘ کی نظم نگاری سے متعلق ہے۔بانی نے اپنی نظموں کی تخلیق میں بڑی ماہیرانہ تکنیک کا استعمال کیا ہے،اور اپنے معنی کی ترسیل کے لئے لفظی تلازمات اور اس کے معنوی انسلاکات و تعلیقات اور اس کی ترسیلات میں بڑی فنی مہارتوں سے کام لیا ہے۔ ان کی نظموں میں استعمال ہونے والے استعارات و تشبیہات و تلمیحات کا تصرف بڑا پُرلطف ہے۔میں یہاں ان کی ایک نظم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
کٹی پھٹی
شام سے
کون بڑھ کر پوچھے
کہ ایک ایک برگ
آگہی کا
ہوا کے پہلے
لرزتے ہاتھوں سے گررہا ہے
تمام موسم بکھر رہا ہے
یہ پوری نظم ایک علامتی پیراے اظہار کی عکاسی کرتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ جس میں موجودہ عہد کے اخلاقی زوال اور انسانی اقدار کی زوال کی داستان کو ایک انوکھے انداز سے پیش کی گیا ہے۔اگر اس نظم میں استعمال ہونے والی علامتوں کا منطقی تجزیہ کیا جائے تو اس کے متون سے بہت سےمعنوی اسرار کو واشگاف کیا جاسکتا ہے۔
اس مونوگراف کا تیسرا عنوان’’ ٹوٹتے رشتوں کا شاعر‘‘کے نام سے ہے۔جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے،یہ مضمون غالباً چار صفحات پر مشتمل ہے۔بہرحال اس عنوان کا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس کا پانچواں عنوان’’ بانی کی شعری انفرادیت ‘‘ سے متعلق ہے،جو اس مونوگراف کا سب سے اہم جز ہے ، اس کے مطالعہ سے بانی کی شعریات کی تفہیم میں قاری کو بہت سی آسانیاں فراہم ہوتی ہیں۔لہذا یہ عنوان اس مونوگراف کا ایک اہم جز ہے۔ اس کا چھٹا عنوان ’’بانی کی نثر‘‘ سے تعلق رکھتا ہے،اس عنوان میں بانی کی نثر نگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بانی جتنے اچھے شاعر تھے اسی معیار کے نثر نگار بھی تھے۔ ان کی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں تخلیقی عناصر پائے جاتے ہیں۔جب کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے،کہ ایک اچھا شاعر بہترین نثر نگا ر بھی ہو،لیکن یہ سعادت بانی کو حاصل تھی۔لہذا بانی کی شاعری کے ساتھ ان کی نثرنگاری کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس کا ساتواں عنوان ’’بانی کا نایاب کام‘‘سے متعلق ہے۔اس عنوان کے تحت عمیر منظر نے بانی کی غزلوں کے کچھ اشعار کا تجزیہ بھی پیش کیا ہےدیگر محققین کے اقتباس کے تناظر میں ، اور کچھ نظموں کو بھی اس تجزیہ میں شامل کیا گیا ہے۔اس کا اٹھوان عنوان ’’ انتخاب کلام‘‘ پر مشتمل ہے ، جس میں بانی کی غزلوں اور نظموں کو اپنی بات کی تائید و توثیق کے لئے بطور نمونے کے پیش کیا گیا ہے۔تاکہ قاری ان کی مجموعی تخلیقی زندگی کے ساتھ ان کے کچھ کلام سے بھی حظ اٹھا سکیں۔ اس کا آخری عنوان ’’کتابیات‘‘ کے حوالے سے ہے،جس میں ان ماخذات کی نشاندہی کی گئی ہے، جہاں سے عمیر منظر نے بانی سے متعلق استفادہ کیا ہے۔مجموعی طور پریہ مونوگراف ’’بانی‘‘ کی تخلیقات سے متعلق ایک بہترین کام ہے ۔لیکن مونوگراف کے مطالعہ کے دوران اجتماعی طور سے ایک تشنگی کا احساس کہیں نہ کہیں باقی رہ جاتا ہے، اگر عمیر منظر اپنی تحقیقی اور تدوینی ذہانت کا بھر پور استعمال کرتے تو یہ مونوگراف مزید بہتر ہوسکتا تھا۔اس مونوگراف کو پڑھنے کے بعد اس بات کا انداز ہوتا ہے کہ مصنف نے اس کام میں بڑی عجلت پسندی سے کام لیا ہے۔جو ایک قسم کا نقص ہے ، اس سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔لیکن اس کے باوجود یہ مونوگراف رامچندرابانی کی تخلیقی اثاثے کی رونمائی میں واجب کفائی کی حیثت رکھتا ہے۔