محمد علم اللہ ،دہلی
(کچھ چیزیں جو میں نے اس سفر کے دوران محسوس کیں اور وقتا فوقتا اپنی ڈائری میں نوٹ کرتا رہا انہیں ذیل میں قارئین کی نذر کرتا ہوں :)
اس میں شک نہیں کہ ایران ایک عجیب جاذبیت کا حامل ملک ہے ۔ یہاں حسن و خوبی کی کمی نہیں ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان یہاں کچھ دن گزارے اور حساس دل ہو تو اس کا گرویدہ نہ ہو جائے۔ ایرانی خواتین جس طرح اپنے اعضاء و جوارح کو کالی چادروں سے ڈھانپے رکھتی ہیں، ایران ٹھیک اسی طرح اپنے خوبصورت مناظر کو سرمئی پہاڑوں اور سیاہی مائل ریگستانوں کے پردوں میں چھپائے رکھتا ہے۔ايران کے لوگ کافی مہمان نواز ہیں۔ کسی بيرونی ملک کے باشندے کو ديکھ کر بہت خوش ہوتے ہيں۔ اکثر اوقات ان کی مہربانی اور محبت کا يہ عالم ہوتا ہے کہ تھوڑی دير بات کرنے کے بعد، آپ کے بہت قريب آجاتے ہيں يہاں تک کہ وہ آپ کو گھر چلنے پراصرار کريں گے اور کھانے کی دعوت ديں گے۔ ايران کے کسی بھی حصّے کا آپ سفر کر لیں، آپ کو نہايت اچھے اخلاق کے حامل پڑھے لکھے لوگ مليں گے۔ يہاں کے لوگ باشعور اور سمجھدار ہيں۔ چند مستثنیات کے ساتھ مجموعی طور پر يہاں کے لوگوں نے اپنی ثقافت کو عمدہ انداز میںپروان چڑھانے میں اپنی حکومت کا بہت ساتھ ديا ہے۔
یہاں ہمارے ملک کی طرح جگہ جگہ پولیس یا ٹریفک پولیس ڈنڈا لیے کھڑی نظر نہیں آتی ہے بلکہ ہمارے اس پندرہ بیس دن کے سفر میں بھی ہم نے کہیں بھی نہ تو کوئی پولیس کا عملہ دیکھا اور نہ ہی کہیں سکیورٹی کے افراد نظر آئے۔ ہاں! حساس جگہوں پر سکیورٹی کے افراد ہوتے ہیں لیکن ان کا بھی جانچ کرنے کا انداز انتہائی مہذب ہوتا ہے۔يہ ايسی خصوصيات ہيں جو ہميشہ ايران کی ثقافت ميں زندہ رہی ہيں۔ ايران کے رہنے والے زمانۂ قديم سے ايسی خصوصيات کے حامل ہيں اور انہی روايات کو انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کيا ہے۔ ايران کی اکثریت نے مغرب کی مادہ پرست ثقافت کو خود پر طاری نہيں ہونے ديا ہے اور مشرقی روايات اور خالص ايرانی ثقافت کو اپنے ملک ميں زندہ رکھا ہے۔
اس پورے دورے میں جو ایک خاص بات دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی: پوری قوم اپنے اپنے کاموں میں ذمہ داری کے ساتھ منہمک نظر آتی ہے۔ نہ چوری کا ڈر اور نہ لوٹ مار کا۔ تقریبا ہر جگہ لڑکیاں اور خواتین بھی تنہا کار چلاتی اور پارکوں میں بیٹھی نظر آتی ہیں، جنہیں نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ کوئی چھیڑنے والا۔ دیواروں، بسوں اور گاڑیوں میں جگہ جگہ گندے پوسٹر اور اشتہار وں کی بھرمار دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ اس کی جگہ خوب صورت آرٹ، پھول، سبزہ وخطاطی کے عکس دکھائی دیتے ہیں۔ ایران کی سڑکوں اور بازاروں میں دکانوں کے ناموں کے اشتہارات اور دوسرے کاروباری اشتہارات کے بورڈ اتنے فنکارانہ ہوتے ہیں کہ کہنا ہی کیا! ایسے ڈیزائن، لے آؤٹ، گرافک ورک، رنگوں کا حسین امتزاج اور اختصار کہ عش عش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایران میں کتابوں کے کور، ڈرامہ کے پوسٹر، فلموں کے اشتہارات بھی بہت فنکارانہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فارسی میں خطاطی قدیم ہونے کے ساتھ کافی بالغ و گھماو دار مگر سادہ ہے اور اسی بنا پر فارسی رسم الخط میں طرح طرح کے ڈیزائن استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے فن خطاطی عرصۂ درازسے چلی آ رہی شاندارروایت ہے۔
ايرانی ثقافت متعدد تہذیبوں کا مجموعہ ہے مثلااسلامی، آذری، کردی، پارسی وغيرہ ۔ ان سب باتوں کے ساتھ، وہ ايک ”ايرانی“ ہونے پر فخر محسوس کرتے ہيں۔ اس کی وجہ سے ان ميں ايک خاص اتحاد نظر آتا ہے اور ايک قوم بن کر وہ ايک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار رہے ہيں۔ ہمارے یہاں ہندوستان میں ”کثرت میں وحدت“ کا نعرہ دیا جاتا ہے لیکن باضابطہ سرکاری نگرانی میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جاتا ہے اور پھر دلتوں کے ساتھ جس قسم کا استحصال صدیوں سے جاری ہے، ایسا بد ترین نمونہ دنیا کے کسی قوم میں شاید ہی دکھائی دیتا ہوگا۔ شاید اسی وجہ سے ہم ایران کی اس خوبی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہاں مسجدوں اور مقبروں میں ہمہ وقت ریکارڈ ڈ سوز اور مرثیے بجتے رہتے ہیں۔ مجھے یہ نہیں پتا کہ یہ حکومتی سرپرستی میں ہوتا ہے تاکہ ایک عمومی مزاج بنا یا جائے یا پھر یہ اس کلچر کا حصّہ ہے جوشیعوں نے حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد ماتم اور غم کی یاد میں اپنا یا ہوا ہے۔ مجھے جتنی بھی مسجدوں یا مقبروں میں جانا ہوایہ کیفیت دیکھنے کو ملی اور ان سب کو سن کر اس کا تاثر قبول کئے بغیر نہیں رہا۔ کہتے ہیں موسیقی کا اثر شخصیت پر پڑتا ہے۔ شاید اسی وجہہ سے ایرانی ایک افسردہ قوم نظر آتی ہے۔ ان کی افسردگی صرف ان کے چہرے سے عیاں نہیں ہوتی بلکہ ایرانی منظرنامے میں بھی اسکے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ دور دور تک سنگلاخ زمین، تنہا پہاڑی راستے اور شاہرا ہیں، مٹی کے گھروں پر مشتمل دیہات، شہر، فلک بوس عمارتوں کے مکینوں پر افسردگی کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔
ایران اسلامی ثقافت اور تاریخ کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے جس کے آثار جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ شاعروں، فن کاروں، ادیبوں اور دانشوروں کادیس ہے جو اپنی ہزاروں سال کی روایت اور فن کے گواہ ہیں۔ ایران میں سفر کے دوران دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آپ نظر انداز نہیں کرسکتے: ایک مذہب اور دوسری ریاست۔ میں خود ان دونوں کے بارے میں تفصیل سے جاننے اور سمجھنے کا متمنی تھا۔ خاص کر اس معاملے میں ایرانیوں کی کیا رائے ہے؟ اس بارے میں مجھے کافی دلچسپی تھی اور اس سلسلے میں اپنی بساط بھر میں نے کئی ایرانی علماء، دانشوروں اور طلبہ سے بات چیت کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں میرا مشاہدہ یہ رہا کہ اگر آپ ان کے خیالات کا احترام کرتے ہیں تو ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔ اس معاملے میں مَیں نے جن افراد سے بھی بات چیت کی ،ایک مشترک خیال دیکھنے کو ملا کہ وہ اپنی ایرانی قومیت کو لے کر زیادہ حساس یا متعصب واقع ہوئے ہیں۔ اس میں اسلامی کم، ایرانی عصبیت کا زیادہ دخل ہے۔ اس میں وہ نوجوان اور افراد بھی شامل ہیں جو اپنی حکومت سے خوش نہیں ہیں اور وہ اسلامی حکومت کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو اسلامی حکومت کو پسند کرتے ہیں اور آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ العالی) کو اپنا سپریم لیڈر ماننے میں تأمل نہیں کرتے۔
ہندوستان میں نوٹ بندی کے بعد ہماری حکومت نے بڑے زور وشور سے کیش لیس مہم کو فروغ دینے کی بات کہی۔ ایران میں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود یہاں کیش لیس نظام پر عمل اور مشینوں کا استعمال ہندوستان سے پہلے سے ہورہا ہے۔ آپ کویہ جان کر تعجب ہوگا کہ یہاں جگہ جگہ پانی کے لیے بھی اے ٹی ایم نصب ہے۔ آپ کو جتنے لیٹر پانی چاہیے نمبر ڈال دیجئے، کارڈ سے پیسے کٹوانا چاہتے ہوں تو کارڈ سے کٹوادیجئے یا پیسہ ڈالنا چاہتے ہوں تو متعینہ رقم ڈال دیجئے اور مشین میں سے حسب ضرورت پانی نکال لیجئے۔ گاڑی پارکنگ کے لیے بھی اسی طرح کی مشینوں کا اہتمام ہے۔ لوگ گاڑی کھڑی کرتے ہیں ، سامنے لگی مشین میں کارڈ شو کرتے ہیں وہ آٹو میٹک طریقے سے ریڈ کرلیتی ہے اور لوگ چلتے بنتے ہیں۔ ایرانی ریال کی زبوں حالی کا یہی ایک نتیجہ نکل سکتا تھا۔ ایک ہندوستانی روپئے کے بدلے آپکو504 ایرانی ریال ملیں گے یا ایک امریکی ڈالر کے بدلے 56132 ایرانی ریال ملیں گے، ایسے میں کرنسی کا استعمال متروک ہو جانا کچھ عجب نہیں ۔
سفرسے قبل ایران کی ایک ویب سائٹ سنز آف سنہّ ڈاٹ کام پرایرانی سنیوں کے تعلق سے ایک خبر پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں آیت اللہ خامنہ ای کے حوالہ سے یہ بات نقل کی گئی تھی کہ ایران میں شیعوں کی تعداد گھٹ رہی ہے ، جب کہ سنّیوں کی تعداد میں اضاٖفہ ہو رہا ہے۔ کئی احباب نے اس حوالے سے تشویش کا بھی اظہار کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ ایران جاؤں تو اس کی حقیقت معلوم کروں۔ مگر مجھے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہماری وہاں ایک بھی سنّی سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ پھر اجنبی جگہ، اجنبی زبان، ابلاغ و تفہیم کی مشکلیں تھیں، اس لئے کام بجائے خود اتنا آسان نہیں تھا اور اسی وجہ سے ہم چاہ کر بھی کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول منتظمین بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم کہیں نہ جائیں، حالانکہ ہم نے منتظمین سے گزارش کی تھی کہ ہمیں اقلیتوں، خصوصا سنیوں، کے علاقوں کا دورہ کرایا جائے اور وہاں کے عوام اور علما ءسے ملنے کا موقع دیا جائے، لیکن منتظمین نے ایسا نہیں کیا۔ اب اس کے پیچھے ان کی کیا منشا ء تھی، یہ وہی بہتر جانتے ہوں گے۔
عالم اسلام کابنیادی مسئلہ اس کی قسم کی جاہلی عصبیتیں ہیں، خواہ وہ مسلک و مذہب سے ہوں یا نسل وقبائل سےیازبانو ثقافت سے۔ اتحاد سے دوری اور فرقہ پرستی نے ہی آج عالم اسلام کو ایسی صورت حال سے دوچار کیاہے کہ دجالی قوتیں ان پر حاوی ہیں اور ہمیشہ کے آقا ہمیشگی کی غلامی پر رضامند ہیں۔ مذہبی رسومات، جدید تعلیم سے دوری، کلچرل شناخت ، دہشت گردی، مسلکی منافرت ، یہ سب مسائل ہیں جن سے عالم اسلام دوچار ہے اور ان مسائل پر قابو پائے بغیر ارتقاممکن نظر نہیں ۔
ایران کے مسلمانوں کا حال اورمستقبل عالم اسلام کی دوسری ریاستوں کے باشندوں سے زیادہ مستحکم ہےکیونکہ یہ ملک زیادہ تعلیم یافتہ ہےاور جمہوری اور سیاسی و سماجی اعتبار سے بیداروباشعور ہے۔ اس کے آئینی ادارے اور نظام مملکت ہندوستان ، برطانیہ اور امریکہ جیسے جمہوری ملکوں کی طرح مضبوط ہیں۔عقائد میں اس کے باشندےخواہ کتنے ہی متعصب ہوں لیکن وہ سیاسی، سماجی اوربین المللی امورمیں رواداروہوشیار ہیں۔سفارت کاری عالم اسلام کے ملکوں میں صرف ایرانیوں کو آتی ہے ۔عالم اسلام کے ممالک دو طرح کے ہیں : ایک مطلق العنان بادشاہت کے زیرنگیں۔ دوسرے جمہوری یا نیم جمہوری – ایران ترکی، اور ملیشیا کے علاوہ ان میں سے اکثر اب تک اپنے نظام حکومت کو استوار نہیں کر سکے ہیں بلکہ ابھی تک تجرباتی مراحل سے گذر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی تبدیلی کے ساتھ ان ملکوں میں نظام بھی بدل جاتاہے جو عہد وسطی میں بھی نہیں ہوتا تھا۔جہاں بادشاہت ہے وہاں عوام اورحکمراں ایک دوسرے کے لیے قابل اعتماد نہیں۔ یہ ایک ذہنی و اعتقادی بحران ہے جس سے ولایت فقیہ کے تصور نے کم ازکم ایران کی شیعہ آبادی کو نکال دیا ہے اور یہ اس کی بہت بڑی طاقت ہے جس کو عملی جامہ آیت اللہ خمینی نے پہنایا۔ اگر کوئی خمینی عرب ملکوں میں بھی پیدا ہواہوتا، جس کا امکان حسن البنا اور سید قطب شہید جیسے قائدین میں تھا، تو ایران اوراس کے حریف مسلم ملکوں میں کلمہ واحدہ کی بنیاد پراصولی تال میل یا اتحاد کی صورت گری بھی ممکن تھی ، لیکن مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی، آمریتوں یا مغرب کے چشم و ابروکے اشاروں پر فیصلہ لینے کے محتاج نام نہاد جمہوری حکمرانوں سے کسی خیر امید کب کی جاسکتی ہے۔
(زیر طبع کتاب ‘‘ایران میں چند دن ’’ سے کچھ اقتباسات)
)مضون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری ہے )