رمضان رفیق،کوپن ہیگن
میری یونیورسٹی کے کچھ احباب نے بڑی رازداری سے بتایا کہ
ہمارا ایک دوست ندیم فرضی نام) قادیانی ہے، لیکن آپ اُس سے تذکرہ مت کیجئے گا۔ پھر ایک دن ایک دوست کہنے لگے وہ جو ایک لڑکا آپ کا دوست ہے (چلئے اُس کا نام اقبال رکھ لیتے ہیں) وہ قادیانی ہے، میں نے کہا آپ کو کیسے معلوم؟ تو کہنے لگا کہ اقبال کے کسی رومیٹ نے بتایا ہے کہ اُس نے خود اپنی آنکھوں سے چندہ دینے والی ایک آرگنائزیشن کی رسید دیکھی ہے جو قادیانی چلاتے ہیں۔ پچھلے سال ایک اسکول کا دوست ملا جس نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے مشترکہ ڈاکٹر دوست جو اب امریکہ میں مقیم ہیں پوری فیملی سمیت قادیانی ہوچکے ہیں۔
اب اِن تین واقعات کا اگر ترتیب سے جائزہ لیا جائے تو ندیم کو میں سالوں سے جانتا ہوں، انگریزی زبان کا بہت اچھا مقرر، یونیورسٹی کا اچھا طالب علم اور سماجی طور پر صلح جُو قسم کا انسان ہے اور اب وہ بیرون ملک بڑی کمپنی میں اچھی نوکری کررہا ہے۔ اُس کے مذہبی عقائد یا اُس کا فرقہ کبھی میں نے پوچھا نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ وہ اپنی گفتگو اور مباحث میں عام اسلامی نظریات پر سوچ بچار کرنے والا اور سوچنے والا انسان ہے جو ہر سوال پر سوچنا اور اُس کو کھوجنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے، ہمارے معاشرتی رویوں کو جگہ جگہ چیلنج کرتا نظر آتا ہے، اِس لئے مجمع کی نظر میں وہ مختلف ہے، کئی دفعہ جب وہ بحث و مباحثہ میں مجھے زچ کردیتا تو مجھے بھی ایسا ہی گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ مسلمان نہیں۔
رہی بات آخری دو حوالوں کی تو اُن سے پیشتر ایک چوتھا حوالہ گفتگو میں شامل کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مشفِق شخص ہیں اور کوپن ہیگن میں بستے ہیں، بہت لوگوں نے بتایا کہ وہ قادیانی ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کے دشمن وغیرہ۔ انہوں نے ایک دن علی الاعلان کہا کہ بھائیوں میں مسلمان ہوں اور جب میں مرجاؤں تو میرا جنازہ فلاں صاحب پڑھائیں جو اِس بات کے گواہ ہیں کہ میں نبی ﷺ پر ایمان لایا اور اُن کے آخری نبی ہونے پر ہی یقین رکھتا ہوں۔اُن کے ایک مخالف سے بات ہوئی، بتانے لگے کہ ایک دن انہوں نے کوپن ہیگن میں رہنے والے دوست سے کہا کہ مجھے کلمہ سناؤ لیکن انہوں نے نہیں سنایا، اب ایسی صورت میں وہ کیسے مان جائیں کہ وہ مسلمان ہیں؟ ایک نجی محفل میں اُن کے بارے بات کرتے ہوئے ایک تاریخی فقرہ سننے کو ملا جو مجھے ساری عمر مسلمان ہونے کے مائنڈ سیٹ کی راہ دکھاتا رہے گا۔ میں گفتگو کو بڑھاوا دینے کے لیے اپنے اِس مہربان کو سپورٹ کر رہا تھا تو ایک شخص کہنے لگا، رمضان صاحب اتنا بھی اِس شخص کو سپورٹ نہ کریں ایسا نہ ہو کہ کل آپ کو اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا پڑے۔کچھ عرصہ پہلے ہمارے فیس بُک کے دوست محمد بوٹا صاحب نے ایک اسلامی ادارے کی طرف سے جاری کیا ہوا ایک سرٹیفکیٹ بھی لگا رکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ فلاں ابن فلاں مسلمان ہیں اور صحیح العقیدہ ہیں۔مجھے ذاتی طور پر ایک دو دفعہ بلاگ پڑھنے والوں کی طرف سے سوالات موصول ہوئے ہیں جن میں پوچھا گیا ہے کہ میں شیعہ تو نہیں ہوں؟ میرے اردگرد فیس بُک پر اب بہت سے اہلِ مذہب اور اسلامسٹ کا تمغہ سینے پر سجانے والے دوست موجود ہیں، اُن کی موجودگی میں، میں کبھی بھی اپنے ذاتی خیالات سامنے لانے کی جسارت نہیں کرتا۔ جیسے ہمارے بہت سے مذہبی دوست اپنی جماعت کے حوالے کوئی تنقیدی بات سُننے کے روادار نظر نہیں آتے اور وہ کسی ایسی جماعت کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں جو ہم نے دیکھی ہی نہ ہو، جس سے ہم ملے ہی نہ ہوں، ایسے ہی مولانا صاحب کے چاہنے والوں کو لگتا ہے کہ اب دنیامیں اسلام اگر پھل پھول رہا ہے تو اس کا منبع مولانا صاحب کی جمیعت ہے وغیرہ، اور وہ بھی ہمیشہ حُسنِ خلق کا روادار بھی صرف اُسی کو ٹھہراتے ہیں جو اُن کے خیالات سے متفق ہو۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ’مسلمان‘ صرف کہنے سے ’مسلمان‘ نہیں ہوتا، بلکہ اُس کو تو دیکھ کر مسلمان ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
وعدے کا ایسا پکا کہ تین دن ایک ہی جگہ وعدے کی لاج نبھانے والے کا پیروکار ہے،
سچا ایسا کہ مال بیچنے سے پہلے اُس کے نقائص کی خبر کرتا ہے،
اُس کا اخلاق ایسا کہ قرآن کی آیت نظر آتی ہے،
مہربان اتنا کہ اپنی آخری سانس کا آخری گھونٹ تک کسی کو دے سکتا ہے،
معاف کرنے والا ایسا کہ تلوار کی نوک تلے آئے دشمن کی گردن نہ مارے کہ اب لڑائی کا رنگ ذات کی لڑائی نہ سمجھا جائے،
حیا دار ایسا کہ فاقہ کش بھی ہو تو دست سوال دراز نہ کرے،
اور تنہائی میں اللہ کے ڈر سے رونے والا، محفل میں بریشم کی طرح نرم، رزم حق و باطل میں فولاد،
میں جب ایسے تصوراتی مسلمان کو دیکھنے کے لئے اِردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو دور دور تک دو چار لوگوں سے زیادہ نظر نہیں آتے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ہمارے ایف ایس سی کے زمانے میں ایک مولوی شاہنواز ہوتا تھا، مجھے سچا مسلمان لگتا تھا، ملتا تھا اور بشاشت روح تک اُتر آتی تھی، مسجد میں بلاتا تھا تو ریا کاری اور جبر کی بو نہیں آتی تھی، بات کرتا تھا تو سنت نبی ﷺ کی خوشبو محسوس ہوتی تھی، پھر کتنے لوگ ایسے ملے ہیں جنہوں نے اِس حوالے سے زندگی کو متاثر کیا۔ لیکن اکثریت ایسی تھی جو تھے تو عبادات کے پکے، نماز کے پابند مگر وعدوں کے کچے، دعوت و تبلیغ کے علمبردار مگر کاروبار میں مکار اور دغاباز، سچ ڈھونڈنے جائیں تو ایک بھی سچا نہ ملے، اخلاق ایسا کمزور کہ اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے چُھرا گھونپنے والے۔
میرا مقصد کسی کو الزام دینا نہیں کہ ریاض مجید صاحب کے اِس شعر کی طرح
بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سِل جاتے ہیں دنیا کو گِلہ دیتے ہوئے
کاش کہ ہم سوچیں کہ ہمارے کاندھوں پر اسلام کو پھیلانے کی جو ذمہ داری ہے کیا ہمارے عمل اِس سے تال میل کھاتے بھی ہیں کہ نہیں، وہ معاملات جو ہماری توجہ چاہتے ہیں سب کہ سب عدم توجہ کا شکار ہیں، اقبال نے کہا تھا،
اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ، مُلا سے نہ پوچھ
ہوگیا، کیوں خالی اللہ کے بندوں سے حرم
اپنے دل سے پوچھئے کہ ہم نے آج تک کس غیر مسلم کے دل میں گھر کیا؟ کس حد تک اسلام کی سفارت کاری کی؟ کمزوروں پر شفقت دکھلائی؟ بڑوں کا احترام کیا؟ اپنی انا کی جنگ میں کتنے غیر مسلموں کا لہو ہم بہائیں گے کہ جب دلائل کی جنگ میں ہار جائیں تو مخالف کی گردن مارنے پر اُتر آئیں؟ اور جب چاہیں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر یا اُس پر کافر کا لیبل لگا کر اُس کے خلاف نفرت کے بیج بونا شروع کردیں؟
پہلے ان تین لوگوں سے میری بات ہوئی کسی کو علم بھی نہ تھا کہ لوگوں نے اپنے تئیں اُن کو دائرہِ اسلام سے خارج کردیا ہے۔ اب وہ کیسے ہر شخص کو یقین دلائیں کہ وہ مسلمان ہوچکے، اگر ہم یہی معیار رکھ لیں کہ کتنے لوگ مسجد میں آتے ہیں اور کتنے نہیں؟ تو اِس کسوٹی پر کون کون پورا اترے گا؟ جو عہد اور عقیدے دل میں ہیں اُن کے اظہار کے علاوہ اور کیا چارہ ہوسکتا کہ لوگ آپ کی بات پر یقین کرلیں؟ جب ہجوم آپ کو مجرم سمجھ لے تو اُن کے سامنے کیا کہا جائے کہ وہ آپ کو معاف کردیں؟
آخری بات یہ کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں؟ کون جنت میں جائے گا یا جہنم میں؟ اِس کا فیصلہ اگر ہم خود نہ ہی کریں تو ہی بہتر ہے، کیونکہ انسان تو اپنے سوا کسی کو بہتر سمجھنے کا روادار کم ہی رہا ہے۔
کن کی جنت کن کی دوزخ کچھ نہیں بس چپ رہو
جو جہاں کا ہے فرشتے خود اٹھا لے جائیں گے