ڈاکٹر مبارک علی
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوال بحث و مباحثہ کا باعث بنتا ہے کہ ہمارے دانشو ر اپنا صحیح او ر مثبت کردار ادا نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ یہ وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور اپنی دانش ، عقل ، تجربہ اور آگہی کو سستے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسے لوگوں کو دانشور بھی مانیں یا نہیں۔ کیونکہ اگر اس کی صحیح تعریف کی جائے تو ہم دانشور ایک ایسے شخص کو کہیں گے جو معاشرے کی پائیدار ، مستحکم اور تسلیم شدہ روایات و اداروں سے بغاوت کرکے، نئے خیالات و افکار کی تبلیغ و تشہیر کرتا ہے۔
ٓآج سے بہت پہلے سترویں صدی میں ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھا تھا کہ تقلید سے پرہیز کرنا چاہیے اور ہر موجود روایت و فکر کو چیلنج کرنا چاہیے اور کسی نظریہ اور خیال کو اس وقت تک قبول نہیں کر نا چاہیے کہ جب تک وہ عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترے۔
لہذا ایک دانشور کا کام تقلید نہیں ہوتا ہے اسے موجود نظام اور خیالات کو نئے معنی و مفہوم کا لباد ہ پہنا کر انہیں جدید قالب میں ڈھالنے کی کوشش نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اصطلاح کے بجائے یا ترمیم کے بجائے وہ انہیں چیلنج کرکے انہیں اپناتا ہے اور پھر ان کی جگہ خلا نہیں رہنے دیتا ہے بلکہ اس خلا کو نئے افکار سے پُر کرتا ہے۔ یہ اس کا تخلیق عمل ہوتا ہے کہ جو اسے صحیح اور بامعنی دانشور بناتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیوں مستحکم اور قدیم روایات سے بغاوت کرتاہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایات ور ادارے ایک وقت پر آ کر حکمران طبقوں اورطاقتور جماعتوں کے مفادات کی خدمات کرنے لگتے ہیں ۔ مزید یہ کہ وہ نظام کہ جو قدیم روایات کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔ تبدیل ہوتے زمانے اور تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے آہستہ آہستہ یہ کھوکھلا ہو کر دم توڑ دیتا ہے۔ اس لیے اگر معاشرہ میں ایسے دانشور نہ ہوں کہ جو نئے خیالات و افکار تخلیق کرتے رہیں کہ معاشرہ وقت و حالات کے تحت چیلنجوں کا موثر جواب دیتا رہے تو ایسا معاشرہ مسلسل پسماندہ ہوتاچلا جاتا ہے۔ اس کی پسماندگی میں وہ نام نہاد دانشور بھی حصہ لیتے ہیں کہ جو اپنی تحریروں اور تقریروں سے اس نظام کو سہارا دیتے ہیں۔
ان حالات میں ہوتا یہ ہے کہ جو دانشور معاشرے کی استحکام شدہ روایات سے بغاوت کرتے ہیں ان کا شمار باغیوں اور منحرفین میں ہوتا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسی کہ سیاسی باغیوں کی۔ جو حکمران کے تسلط اور اقتدار کو چیلنج کرتے ہیں اسے غداری تصور کیا جاتا ہے اور یہ سیاسی باغی سخت سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ کم و بیش یہی صورتحال ذہنی باغیوں کی ہوتی ہے ان کی بغاوت کو نہ صرف حکمران طبقوں بلکہ معاشرے کی اکثریت میں ناپسند کیا جاتا ہے اور سزا کے طور پر انہیں معاشرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔
ان کے خیالات و افکار کو معاشرے کے استحکام اور امن کے لیے خطرناک سمجھتے ہوئے انہیں سنسر کیا جاتا ہے ان کی کتابیں جلائی جاتی ہیں اور انہیں معاش کے تمام ذرائع سے محروم کر دیا جاتاہے۔ اب اگر کوئی معاشرہ مستقل پسماندگی کا شکار رہتا ہے یا خاص طور سے یہ عمل آمرانہ حکومتوں یا نظریاتی ریاستوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں مخالف خیالات کو قطعی برداشت نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ یہ ان کے مفاد میں نہیں ہوتاہے کہ ذہنی طور پر تبدیلی آئے ، لوگوں میں شعور پیدا ہو۔
ان حالات میں منحرف دانشور راندہ درگاہ ہوتے ہیں بلکہ تاریخ بھی انہیں فراموش کردیتی ہے۔ لیکن اگر کسی مرحلہ پر معاشرہ تبدیلی کے لیے تیار ہو تو اس صورت میں یہ دانشور اندھیروں سے باہر آتے ہیں اور معاشرہ ان کے افکار و نظریات کو اپنے لیے مشعل راہ بناتا ہے۔
مسلمان معاشرہ کا یہ المیہ رہا ہے کہ اس نے ان دانشوروں کو جنہوں نے تقلید کے بجائے تخلیق کا راستہ اختیار کیا انہیں اپنا ماننے سے انکار کریا۔ کندی ، رازی، فارابی، ابن رشد، ابن سینا اور ابوالفضل آج بھی باغی ہیں اور ناقابل معافی ہیں ۔جب کہ امام ابن تیمیہ ، امام غزالی اور اشعری اور احمد سرہندی نظریاتی رہنما ہیں۔
ایک دانشور کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ریاست کا حصہ نہ بنے بلکہ اس سے دور رہے۔ کیونکہ حکمران طبقے ریاست اور اس کے اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب یہ مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو وہ ان تمام لوگوں کو جو اس میں شریک تھے اس کا سحر ایک طرف پھینک دیتے ہیں۔مزید یہ کہ ریاست کے مقاصد ہمیشہ وقتی ہوتے ہیں وہ حالات کے تحت خود کو بدلتی ہے اوروقت کے بدلنے کے ساتھ ہی اپنے خیالات و افکار سے بھی منکر ہوجاتی ہے۔
اس کی ایک مثال عہد عباسیہ میں مامون کی ہے کہ جس نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے معتزلہ کی سرپرستی کی مگر اس کے بعد جب اس کے جانشینوں کو اس کی ضرورت نہیں رہی تو انہوں نے اس تحریک کو کچل کر رکھا دیا۔
لہذا دانشور کو سیاست کی سرپرستی سے بالاتر ہو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس میں دشواریاں اور خطرات ہیں مگر اس کے علاوہ اس کے لیے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے وہ ایک طرف اپنی تخلیق کی آگ میں جلتا ہے تو دوسری طرف معاشرے کی نفرت کو برداشت کرتا ہے اسی اذیت میں اس کی زندگی گذرتی ہے۔
اس وجہ سے دانشور کو کسی صلہ ، انعام، تحفہ اور شہرت کی تمنا نہیں ہوتی ہے وہ بغاوت اس لیے کرتا ہے کہ اس سے اس کے اندر کی تخلیقی قوتوں اور توانائیوں کو جلاملتی ہے ۔ وہ انحراف اس لیے کرتا ہے کہ اس سے اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ معاشرہ کا ذہنی جمود ٹوٹے اور ایک ہلچل ہو کہ معاشرہ آگے بڑھ سکے۔ لوگوں کو نئی راہ نظر آ سکے اور لوگ ذہنی طور پر پختگی حاصل کر سکیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو ایسے دانشوروں کی ضرورت ہے یا ان لکھنے والوں کی جو کہ پرانی شراب کو نئی بوتلوں میں ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں؟