پروفیسر سید شبیہ الحسن نونہروی
میرانیس ؔ کا نسلی یا خاندانی ادبی شعور ہمہ جہت ابداع واختراع کی طرف پانچ پشتوں سے بڑھ رہا تھا، ادبی صلاحیتیں ہر چند کہ توارث سے منتقل نہیں ہو تیں مگر اس نسل میں ادبی تو انائی و رعنائی ہر نئی پیڑھی میں دوگنی شائستگی اور قوت کے ساتھ منتقل ہوکر میر انیس کے یہاں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچی ، اردو کے کسی بھی معروف اور بڑے شاعر کے سلسلہ میں نسل و خاندان کی ادبی روایت کے ایسے پائیدار ارتقاء کی کوئ دوسری مثال نہیں ملتی ہے اس پورے سلسلہ میں مضامین و معنویت کے علاوہ زبان کا استعمال اور اس پر عبور ہمیشہ بڑی ندرت کا حامل رہا ہےضاحکؔ کے یہاں زبان کا استعمال چاہے عجیب ہومگر ندرت و جدّت خالی نہیں تھا میر حسنؔ ، سو داؔیا میر تقی میر ؔ کے برابر شاعر نہیں تھے مگر ان کی زبان ان دونوں سے یقیناً بہتر تھی ، خلیقؔ کے متعلق اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ناسخؔ کے ایسا مو شگاف خلیقؔ کی زبان کی تعریف کرتا تھا اور سیکھنے والوں کو ان کی طرف رجوع کی ترغیب دیتا تھا رفتہ رفتہ جمع ہونے والی اور فروغ پانے والی یہ ادبی صلاحیتیں میرانیسؔ کی شخصیت میں ایک ایسا درّاک ذہن اور حساس شعور پاگئیں جس نے اردو ادب کی شان اور قوت کے سارے اندازوں کو بدل دیا۔
میر انیس ؔ کا ظہور و نمود ایک ایسے عہد میں ہوا جس کی زر خیزی اور زرپاشی کا جواب اردو کی ادبی تاریخ میں فراہم ہوناممکن نہیں، انہوں نے ایک زریں عہد میں پرورش پائی ، معطر دور میں سانس لی اور چمن طراز پس منظر میں پرواز کے لئے دست و بازو کھولے اور اپنے فنی کما لات کے اظہار کے لئے ایک ایسی صنف سخن منتخب کی کہ جس میں اس عہد کے صاحبان رائے کے تصور کے مطابق مضمون نوپیدا کرنا مشکل تھا مگر انہوں نے بار بار مضامین نو کے انبار لگا دیئے۔ مرثیہ میں درست زبان اور فنی آداب کا برتنا محال خیال کیا جا تا تھا، گمان یہ تھا کہ صرف بگڑا ہوا شاعر ہی اس میدان میں اپنی کج افتادی کے مظاہرے کر سکتا ہے مگر میر انیس نے ایسی فنکاری کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھا کہ ان کے مقابلہ میں دوسرے اصناف کے بہت سے اہم فنکار بھی بگڑے ہوئے شاعر معلوم ہونے لگے۔ اس عہد میں عروس سخن کی مشاطگی کا منصب مرثیہ نگار ک علاوہ اور کسی بھی دوسرے صنف کے شاعر اور بالخصوص عزل گو کے حوالے کہ نا بڑی فطرت اور مناسب بات معلوم ہوتی تھی مگر میر انیسؔ نے اہلیت کے ساتھ اس منصب پر حاکمانہ اقتدار حاصل کر لیا ان کے اس بیان میں کسی طرح کامبالغہ نہیں ہے:
نظم ہے یا گوہر شہوار کی لڑیاں انیسؔ جوہری بھی اس طرح موتی پروسکتا نہیں کسی نے تیری طرح سے اے انیس عروس سخن کو سنوارا نہیں وہ گل ہوں عنایت چمنِ طبع نکوکو بلبل نے بھی سونگھا نہ ہو جن پھولوں کی بوکو گلد ستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے با ندھوں اک پھول کا مضموں ہو تو سورنگ سے باندھوں نازان ہوں عنایت پہ شہنشاہِ زمن کی لو بر طرفی پڑ گئی مضمونِ کہن کی اردوادب کی ارتقائی تاریخ میں وہ ایک غیر معمولی جامع منصب کے حامل تھے وہ محض زبان اور حسن بیان کے نہیں بلکہ اخلاقی بصیرت و اقدار کے بھی شاعر تھے، اس اعتماد ، خود داری، حق شناسی، حریت فکر، جرأت اظہار واقدام اور مجموعی طور پر کردگاری کردار، کے ترجمان تھے یہ منصب انہیں موضوع کے طفیل میں ہاتھ میں آیا تھا، موضوع کی گہرائی اور اس میں مضمر جو ہری تو انائی کو فن میں منتقل کرنا، غا زہ بند فنکاروں کے امکان سے باہر تھا اس کے لئے میر انیسؔہی کے ایسا فنکار درکار تھا۔ یہاں بھی موضوع کی عظمت اور فنکاری کی ندرت میں تطابق اور ہم آہنگی کا واضح احساس میر انیسؔ کے علاوہ اور کسی دوسرے شاعر کے یہاں بہتر طور پرممکن نہیں ہے ان کا موضوع جتنا عظیم تھا امکانی طور پر ان کی فنکاری بھی ویسی ہی مکمل تھی۔ وہ بیک وقت جمال افروز مشاہدہ، خاراشگاف جذبہ ، نسیم سحری کوشرمندہ کرنے والے بیانیہ اسلوب شائستہ تہذیب ، گہر بار زبان ، ناقابل شکست اقدار کے نمائندہ تھے انہوں نے مرثیے نہیں لکھے بلکہ تمام نزاکتوں کے پیش نظر بال سے بار یک اور تلوار سے تیز فنی صراط مستقیم پروثوق اور اعتماد کے ساتھ سفر کیا ، یہ بیت انہوں نے ایک اور سیاق و سباق میں کہی ہے مگر خودان پر بھی صادق آتی ہے۔
ہر چند باغ دہر کو کیا گیا ملا نہیں اب تک تو اس روش کا کوئی گل کھلا نہیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کے خوشہ چیں مرثیہ کی دنیا تک محدود ہیں دوسرے اصناف سخن میں بھی ان سے روشنی حاصل کرنے والوں اور پنہاں خوشہ چینی کرنے والوں کی تعداد قیاس اور اندازہ سے باہر ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں ، اگر اس عہد کی مجموعی ادبی فضا کا غائر جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ کرنا چنداںدشوار نہیں ہے کہ میرانیس کی لائی ہوئی فنی برکتوں سے وہ نیا ادبی ذہن بھی متاثر ہو رہا تھا جو سرعت کے ساتھ نظریاتی تبدیلیوں کو قبول کررہا تھا۔ اس عہد میں جدید نظم کا آفتاب طلوع ہوا جس کے خاص راہنماؤں میں محمد حسین آزاد ؔ، حالیؔ اور کسی حد تک شبلیؔ بھی تھے اس قبیلہ کے سبھی فنکاروں کے یہاں نقطۂ نظر اور موضوع کی جو جدّت اور فطرت شناسی اور خالص انسانیت کو فن میں سمیٹنے کی جو کو شش نظر آتی ہے اس میں مغربی اثرات کے علاوہ اس موضوعاتی توسیع کا بھی بڑا دخل ہے جس کا عرفان مرثیہ نگاروں اور بالخصوص میر انیسؔ کی وجہ سے عام ہواتھا، جدید نظم کا ہیولیٰ بغیر کسی خاص جستجو کے میر انیس ؔکے مرثیوں میں جا بجا بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی عہد میںحالیؔ کا مسدّس اور مقدمہ شعروشاعری و جود میں آیا ۔ حالی ؔ صرف جدید ہی نہیں تھے بلکہ اردو ادب کو ایک جدید دور میں داخل کرنے کا ذریعہ بھی تھے، حالی کے ان دونوں کارناموں کی داخلی شہادتیں میر انیسؔ کے اس فیض عام سے کسی نہ کسی طرح کا ربط رکھتی ہیں جس کے اداراک و تعمیل میں حالیؔ کو تقدم حاصل ہے اپنے مقدمہ میں حالی نے مختلف اصناف سخن کے سلسلہ میں جو جارحانہ رائے دی ہے اس کے پیش نظر مرثیہ اور میرانیسؔ کے متعلق ان کی اچھی رائے خصوصی اہمیت کی حامل ہے، وہ نہ صرف حالی کے ذہنی تاثر کی غماز ہے بلکہ اس تخلیقی عظمت کا فیض و اعتراف بھی ہے۔ جس سے حالی کے تنقیدی نظریہ اور شعری رویہ کی عمومی تاسیس ہوئی ہے اسی طرح ان کا مسدس بھی اگر چہ صوت و آہنگ کے اس جمال وکمال سے محروم جو میر انیسؔ کے کلام کی عام خصوصیت ہے لیکن اس میں وہ طوفان و تلاطم تو بہرحال موجود ہے جو میر انیس کے کلام جا بجا نہیں بلکہ بکثرت اور بہتر مشکل میں ملتا ہے۔انہیں کے بقول اردو شاعری میں جو ایک مدت سے ’ماء راکد ‘ یعنی رُکے ہوئے پانی کی طرح پڑی ہوئی تھی، میر انیس نے طوفان و تلاطم پیدا کر دیا ۔ حالی کے نئے تجربات اور اردو شاعری کے ماء راکد میں خود حالی کی کوششوں سے پیدا ہونے والے تموّج اگر مکمل طور پر میرانیسؔ کی دین نہیں بھی ہے تو اس سے متاثرتو ضرور ہی ہے، حالی کا مسدس تو واضح طور پر کئی حیثیتوں سے اس انقلاب آفرینی کے احساس سے چھلک رہا ہے جس کا حالی نے میر انیس کے یہاں مشاہدہ کیا ہو گا اس بات کو مزید پایۂ ثبوت تک پہنچانے کے لئےحالی کے ان خیالات کا اعادہ مفید ہو گا جن میں لکھنؤ سے دہلی تک میر انیسؔ کے فنکاری کے نفود کا انہوں نے احساس کیا جب کہ حالی مدح سرائی سے بالعموم گریز کرتے ہیں۔
دلی کی زبان کا سہارا تھا انیس
اور لکھنؤ کی آنکھ کا تارا تھا انیس
دلی جڑ تھی تو لکھنؤ اس کی بہار
دونوں کا ہے دعویٰ ہماراتھا انیس
اسی طرح شبلیؔ کا موازنہ خواہ انصاف پر مبنی نہ ہو مگر اس احساس جمال اور اصول فصاحت و بلاغت اور صوتی آہنگ کے اور اک کی علامت تو ضرور ہے کہ جس کے لئے شبلیؔ طبعی مناسبت کے علاوہ میر انیس کی پیدا کردہ شادابیوں کے ممنون تھے، حالیؔ شبلیؔ اور آزاد ؔکے بعد جن نمودار شاعروں نے مسدس نظم کئے یا مناظر فطرت کی نقاشی کی،یا اخلاقی نظمیں لکھیں انہوں نے براہ راست یا بالواسطہ ، عام طور سے میر انیس کی خوشہ چینی کی ہے ہیئت و مفہوم کو یک جان بنا نا اردو ادب کے لئےمیر انیس کی فنکاری کا ایسا تحفہ اور نمونہ ہے کہ جو آئندہ آنے والےان سب ہی فنکاروں کے لئے نصب العین کا کام دیتا رہا جنہوں نے مفہوم کے علاوہ شفاف اور چست ہیئت کو بھی فنی لوازم میں شمار کیا۔ اس موقع پر انیس کے ناکام خوشہ چینیوں کو چھوڑ کر صرف کامیاب فیض حاصل کرنے والوں کا بھی ذکر کیا جائے تو فہرست شمار سبحہ سے باہر ہو جائے گی۔ ہمارے بڑے اور بہت بڑے شاعر وہی ہیں جنہوں نے آشکار یا پنہاں، بہ رضا ورغبت یا بہ مجبوری و کلفت میر انیس کی بہت یا بہت زیادہ خوشہ چینی کی ہے۔ سرور جہاں آبادی، چکبست ، شاد عظیم آبادی ، صفی، آرزو ، اقبال ، جوش ، جمیل مظہری اور علی سردار جعفری ، اس کی چند واضح مثالیں ہیں چکبست کی منظر نگاری ہر چند کہ انیسؔ کی منظر نگاری کے مقابلہ میں کارچوب کی الٹی سمت ہے لیکن اسلوب و خاکہ میر انیس ہی کارکھتی ہے، اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ صرف مسدس ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر انیس کی بوطیقا سے متاثر ہے۔ جوشؔ اپنی شاعری مسدس اور بالخصوص واقعہ کربلا سے متعلق منظومات میں، فکری جدید کو میر انیس کی ہیئت میں ڈھالتے ہیں۔ در اصل میر انیس کا کارنامہ صرف یہی نہیں ہے کہ انہوں نے اردو زبان کو سب سے بہتر شکل میں استعمال کیا بلکہ ان کی فنکاری نے ایک خاص طرح کے لسانی ذوق کی ترویج کی اور جمالیاتی شعور کو جلا بخشی ، انہوں نے اردو زبان میں سمیٹے ہوئے اس خوابیدہ جس کو بیدار کیا جو عرصہ سے جیسا کہ شروع ہی میں اشارہ کیا جا چکا ہے، میر انیس کے ایسے کسی فنکار کے لمس کا منتظر تھا ، اسی لئے ان کا فیض مرثیہ کی صنف سے بلند ہو کر عام اردو ادب پر ابر مطیر کی طرح چھا گیا اور اسی لئے ان کے خوشگوار اسلوب اظہار کا اثر محض مسدس یا چند موضوعات تک محدود نہیں رہا، بالواسطہ غزل گو شعراء نے بھی اس سے اتنا ہی فیض اٹھایا جتنا نظم گو شعراء یا عام طور سے مسدس نگاروں نے۔
آزادی سے پہلے جب ہماری قوم تحریکیں برق و طوفان بن کر ملکی اور قومی افق پر چمک گرج رہی تھیں تو اردو شاعری بھی شعلہ جوالہ بنی ہوئی تھی، آزادی کی نظمیں قومی رزم گاہ میں کوہ آتش فشاں کی طرح اُبل رہی تھیں اس عہد میں جس رزمیہ مزاج کا مظاہرہ اردو شاعری نے کیا وہ عالمی ادب میں قابل فخر کارنامہ محسو ب ہونے کے لائق ہے مگر سوال یہ ہے کہ جدوجہد آزادی کے دوران اردو شاعروں کو رزمیہ مزاج ، تیکھاپن ، کج کلا ہی بلکہ خارشگافی کا جوہر کس ادبی روایت نے بہم پہنچایا؟ ان کی تیغ دودم کو صیقل کہاں سے نصیب ہوئی؟ ان کے موضوعات پر ہیئت کے کس تصور نے سان دھری؟ در پر دہ ان کی فنکاری کو مہمیز کرنے والی تو انائی کہاں سے بہم پہنچی؟ ان کی رجز خوانیوں میں نہیب کس نے پیدا کیا؟ ان کی مبارز طلبی میں یہ ولولہ اور یہ جرأت کہاں سے نمودار ہوگئی۔
ہاں اب ہمیں ہٹاؤ تو جانیں کہ مرد ہو
وہ بنیادی فلسفہ اور نظریاتی استحکام جو رزم آرائی میں جوش کے ساتھ وثوق اور اعتماد پیدا کرتا ہے کن سلسلوں کو عبور کرتا ہوا ہمارے آزادی کے شعراء تک پہنچا تھا؟یہاں بھی اگر پھیلی ہوئی جڑوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ سارا عہد اس میں کہی جانے والے مبارزتی نظموں میں میرانیسؔ کی معنوی خوشہ چینی بہت ملے گی۔ ان کے مراثی کا رزمیہ غصر خیر و شر میں تفریق کرنے والی گہری بصیرت کا پروردہ اور تربیت دادہ تھا اس میں محض فنکاری نہیں ہے بلکہ قومی اور ملی نفسیات کی بھی پوری جلوہ گری ہے،انیس کی مرثیہ نگاری میں جوش اور ولولہ کا جو طوفان ہے وہ ایسے اخلاقی اور دینی نظام فکر سے برآمد ہوا تھا جو کسی بھی جدو جہد میں اعتماد پیدا کر نے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ میر انیسؔ نے رزمیہ کی پروش و پرداخت اس طرح کی کہ اس کی افادیت ایک عہد یا ایک طبقہ میں محدود نہ رہی بلکہ اس نے اپنے اندر مضمر اخلاقی اقدار اور توانائیوں کی بنا پر ایک ایسی روایت اور مثال کی حیثیت اختیار کرلی کہ جس سے غیر محدود استفادہ ممکن ہو گیا۔ حسن اتفاق سے ہندوستان کی جدو جہد آزادی کے دوران فنی سطح پر بھی میر انیس کی قائم کردہ روایت اور پیغام سے استفادہ کا اچھا موقع پیدا ہوگیا۔ آزادی کی نظموں کو میرانیس کی رزم نگاری کے مختلف نمونوں سے اگر ملا کر دیکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہہ موضوع ، پس منظر اور عہد کے فرق کے باوجود ان کے مزاج، بنیادی فلسفہ اور فنی آداب میں بڑی حدتک مماثلت پائی جاتی ہے۔ میرانیس کا رزمیہ واضح طور پر عدم تشدد کی بنیاد پرقائم تھا۔ حسن اتفاق سے ہندوستان کی جنگ آزادی کی بھی یہی بنیاد تھی اس لئے بلا تکلف میر انیس کی فکر رسا اس سلسلہ میں بھی کام آگئی۔
میر انیس کا عہد ختم ہو چکا مگر ان کے فن اور ان کی قائم کردہ روایت زندہ حقیقت کے طور پر اب بھی موجود ہے انہوں نے اپنی بالغ النظری اور ہمہ گیر اور ادراک کی مدد سے اپنے موضوع میں جس طرح کی وسعت پیدا کی اور پھر جس طرح مضامین نو کے انبار لگائے وہ مجموعی طور پر ہمارے قومی ادب میں بیش بہا اضافہ کا باعث بنا، انہوں نے زبان و بیان کے جس جمالیاتی شعور کو پیدا کیا وہ آئندہ نمودار ہو نے والے ادبوں کی اجتماعی میراث بن گیا، انہوں نے محض مرثیہ نگاری نہیں بلکہ ادب کے آب زلال کی ایک سبیل رکھ دی جس سے استفادہ کے لئے خوش ذوقی اور اہلیت کے علاوہ اور کوئی شرط نہیں ہے۔
لکھے انیسؔ خوب نہ سرعت یہ چند بند
لے جائے شوق سے جسے مضموں ہوجو پسند
اک جاہے شیر و شکر و شہد و نبات و قند
اس کے کرم سے ہو گا یہ دریا کبھی نہ بند
نہریںرواں ہیں فیض شہ مشرقین کی
پیاسو پیو سبیل ہے نذرِ حسین کی