شاہدؔکمال
نام محمد حیدر خاں تخلص خمار ؔ ۱۵؍ستمبر ۱۹۱۹ ء کو بارہ بنکی کے معروف شاعر بہارؔبارہ بنکوی کے گھر پیدا ہوئے ۔ مبتدیاتی علوم کی تہذیب اپنے محترم چچا قرارؔ بارہ بنکوی سے سیکھی ،اورجوبلی کالج لکھنو سے انٹر میڈیٹ کاامتحان پاس کیا۔ لیکن خمار کی ارتجالی طبیعت مزید نصابی تعلیم کی متحمل نہ ہوسکی۔خمارؔ کا ذہنی تجدد اپنے مروجہ معاشرتی نظام عقلیات کے آڑے آگیا۔ لہذا انھوں نے اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات کی ژرف بینی سے زندگی کے رموز ونکات کو درک کرنے میں خود کو منہمک کردیا۔
خمارؔ اپنی فطری نجابت کی بنیاد پر بڑے کشادہ قلب اور وسیع النظر واقع ہوئے تھے ۔ ان کی زندگی اخلاقیات کی انتہائی قدروں سے مزین تھی اور ان کے ظاہر و باطن میں بڑی یکسانیت بھی ۔وہ صرف ایک معقول شاعر ہی نہیں بلکہ ایک معقول شخص بھی تھے ۔خمارؔ کی مقناطیسی شخصیت کا ہی اثر تھا کہ وہ اپنے معاندین و موانسین کے درمیان یکساں طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔میرے خیال سے خمارؔکا یہی اخلاقی تجرد ان کی زندگی کے ایک بڑے المیہ کا پیش خیمہ بھی تھا۔ خمارؔ اپنی شاعرانہ قدروں کے تسلط سے اپنے اخلاقی سلامت روی کے جذبۂ سبک اندام کا تحفظ کرنے میں ناکام ثابت ہوئے مزید یہ کہ جب ان کے ایام جوانی کی منھ زور خواہشوں نے اس پر تصرف وتجاوز کیا تو خمارؔ کو رند شاہد باز کی صف میں لا کھڑا کیا ۔گویا خمارؔ نے خمارؔ کو شکست دیدی اور یہیں سے ان کی زندگی کے اک نئے روزوشب کا آغاز ہوا،اور خمار کی انھیں رندانہ سرمسیتوں اور خمریاتی برافروختگی نے خمار ؔاور خماریات کو فعلی سطح پر اتناقریب کر دیا کہ دونوں اسم با مسمیٰ ہوگئے۔
خمارؔ کی زندگی اور شاعر ی میں بڑی بیباکانہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر جہاں تک خمارؔ کی شاعری کی بات ہے تو ان کی شاعری خالص روایت پسندانہ شعور کی عکاس ہے۔چونکہ خمارؔ ذہنی طور سے کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے ۔لیکن وہ رجعت پسندیت کے باوجود ترقی پسند تحریک یا جدیدیت کے رجحان سے اغماز تو کرتے تھے لیکن اسے مسترد نہیں ۔وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔
ــ’’۔۔۔۔۔میں خود کلاسیکی غزل کا ہی دل دادہ ہوں وقت بدلتا رہے گا،قدریں بدلتی رہیں گی،غزل میں اور بھی نئے نئے تجربات کئے جائیں گے ۔(خدا کرے وہ تجربے کامیاب ہوں)لیکن اپنا عقیدہ ہے کہ جب تک انسان ہنسنا اور رونا جانتا ہے اسوقت تک کلاسیکی غزل بھی زندہ رہے گی۔۔۔۔‘‘۔
( جشن خمار بارہ بنکوی ’’اپنی بات‘‘ )
یہی وجہ ہے کہ خمارؔ کی غزلوں کے شعری اندام میں پروان چڑھنے والا دکھ ان کی اپنی ذاتی زندگی کے درد سے کہیں زیادہ سماج کی کربناک اذیتوں کا رہین کارہے۔ خمار نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور اس کے فطری جبر سے متصادم ہونے والی انسانی کیفیات و جذبات اور سماجی خلا سے ابھرنے والی یاسیت اور لاحاصلیت کے احساس کواپنی شعری نفسیات میں تحلیل کر کے غزل کے فطری رنگ کو دوآتشہ کردیا۔اس لئے خمارکی غزلوں کے اندرون میںبیک وقت موجزن یاسیت و محرومیت اور کیف وانبساط کے متغائر جذبے ایک دوسرے میں مدغم ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔غالباً شمس الرحمن فاروقی نے بھی خمار کی شاعری کی انھیں خوبیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔’’خمارؔ کے یہاں عشق کا حرماں ہی عشق کا پھل ہے اور ان کا عشق وصل وہجراں کی منزلوں سے گزرتا ہوا کمال انس کی منزل میں متمکن ہے ،اور ان کی سرشاری وہ نشہ نہیں جس کے بعد تلخی اور معشوق پر ان کا طنز بھی ایک عجیب لگاوٹ رکھتا ہے۔‘‘
اگر اس اقتباس کی روشنی میں خمار ؔکی غزلیہ شاعری کی بات کی جائے توان کی غزلوں کی سرنوشت میں پروان چڑھنے والاعشق ابھی غیر ممیز ہے جو ہجرو وصال کے حدودِ ممانست سے آگے کی منزلوں سے ابھی غیر متعارف ہے اور اسے عرفان کی ان مدارج تک رسائی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جو اپنے کارناموں سے چشم عقل کو تحیر زدہ کرسکے۔میرا مقصود خمار کی مجموعی شاعری نہیں ہے بلکہ اس کا اختصاصی پہلو ہے جو عنوان کے طور پر متعین کیا جاچکا ہے۔لہذا اس موضوع کے تاریخی پس منظر کا ایک اجمالی جائزہ ضروری ہے۔
جب ہم اس زوایہ سے غزل کے کثیرالموضوعات کینوس پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو خمریات ہماری روایتی شاعری کے اکابر شعرا چاہے وہ عجمی ہوں یاعربی ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔عربی شعرا میںیہ موضوع خاص شغف کا حامل تھا۔اس کی خاص وجہ ان کی سماجی تہذیب اور قبائلی تمدن بھی تھا۔اگر عرب کے تاریخی حافظہ کی بنیاد پر بات کی جائے تو ہارون رشید جس کا تعلق خاندان بنو عباس سے تھا اس کے درباری شعرا نے سب سے زیادہ خمریاتی موضوع پر اشعار تخلیق کئے اور اس کا سرخیل ہارون رشید کا درباری شاعر ابونواس کو متصور کیا جاتا ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے بنو امیہ کے درباری شعرا بھی ان سے پیچھے نہیں تھے۔ لیکن فارسی شاعری کی زرخیزیت اس موضوع کی طبعی جولانیت میں کافی ممد د و معاون ثابت ہوئی۔اور ایک سے بڑھ کر ایک قدآوار شعرا نے اس موضوع کو بڑی فنی ندرتوں کے ساتھ برتا۔اس حوالے سے جامیؔ،سنائی،رومی،عطاری اورنظامی سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔لیکن جو مقام حافظ و خیام کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا۔حافظؔ نے بھی اس موضوع پر کثرت سے اشعار تخلیق کئے جن کے بہت سے اشعار ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیںاور ان کے خمریاتی اشعار عرفانیاتی زمرے میں آتے ہیں۔حافظؔ بذات خود ایک خدا ترس ،پاکباز شخص تھے وہ ان غیر اخلاقی علتوں سے محترز تھے ۔لیکن ان کی غزلوںکے خمریاتی اشعار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ملاحظہ کریں۔
مادر پیالہ عکس رخ یاردیدہ ایم
چو آفتاب می ازشرق پیالہ برآید
ای بخیر زلذت شرب مدام ما
زباغ عارض ساقی ہزار لالہ بر آید
لیکن خیام ؔ کی خمریاتی شاعری نے جو مقبولیت حاصل کی وہ کسی اور کو نہیں مل سکی خیامؔ کی رباعیوں کے تراجم اردو ، عربی ،ہندی، جرمنی ،روسی اورفرانسیسی کے علاوہ متعدد زبانوں میں ہوئے دیگر زبانوں کے مقابل ان کی رباعیات کے ترجمے جتنے انگریزی میں ہوئے کسی اور زبان میں نہیں ہوئے۔غالبا یورپ میں ایڈورڈ فزجرالڈ نے اپنے ترجمے کے ذریعہ خیامؔ کو یورپ میں متعارف کرایا۔ہندوستان میں رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی خیام کی رباعیوں کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔خیام ؔ کی خمریاتی رباعیات کے بلند آہنگ اور معرفت آمیز معنوی مطالب کا اندازہ ان رباعیوں سے لگا یا جاسکتا ہے۔
صبح خوش و خرم است خیز اے ساقی
دردشیشہ کن شراب از شب باقی
جائے من او خوش غنیمت میداں
ایں یکدم عمر را کہ فردا خاکی
تا چند ملامت کنی اے زاہد خام
ما رند و خراباتی و مستیم مدام
تو در غم تسبیح و ریا و تلبیس
ما با مئے مطربیم و معشوقہ بکام
مزید طوالت سے پرہیز کرتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ اختصا ص صرف فارسی شاعر ی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہماری اردو شاعری بھی خمریات کے عرفانی موضوعات سے خالی نہیں ہے۔فارسی کی طرح اردو کے بیشتر اکابر شعرا نے اس موضوع پر کثرت سے اشعار تخلیق کئے ۔
ہر چند ہومشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مصروف حق ہوں بندگی بو تراب میں
(غالبؔ)
وہ میکش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جاؤں
ہوائے گل فراق ساقی نا مہرباں تک ہے
مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے
(علامہ اقبال)
ادب کر اس خراباتی کا جس کو جوش کہتے ہیں
کہ یہ اپنی صدی کا حافظ ؔو خیام ہے ساقی
(جوش ملیح آبادی)
خمارؔ بھی خود کو اسی سلسلے کی ایک کڑی تصور کرتے ہیں۔ ہم اپنے موضوعاتی عرائض کی بنیاد پر خمارؔ کی مختلف غزلوں سے منتخب کئے گئے متعدد اشعار کا تجزیاتی و انتقادی جائزہ لیں گے۔اشعار ملاحظہ کریں۔
خمارؔ بلانوش تو اور توبہ
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے
واعظ سلام لے کے چلا میکدے کو میں
فردوس گم شدہ کا پتہ یاد آگیا
کیسے مبہوت سے بیٹھے ہیں جناب زاہد
جیسے پہلے ہی پہل آئیں ہیں میخانے میں
تو قیامت سے ڈراتا ہے ہمیں اے واعظ
آتی رہتی ہے شب و روز یہ میخانے میں
واعظ سادہ لوح کی ہائے رے چیرہ دستیاں
مئے کو بتا رہا ہے تلخ ،ظلم یہ ہے کی پی نہیں
آج ناصح نے کہیں کا بھی نہیں رکھا تھا ہمیں
وہ تو یہ کہیے کہ تیری یاد آڑے آگئی
اے محتسب عذاب جہنم بجا مگر
اک چیز اور رحمت پروردگار ہے
مذکورہ اشعار میںایک عجیب ذہنی کشمکش ہے۔ جس نے ایک پُر لطف حریفانہ چشمک کی شکل اختیار کرلی ہے اور خمارؔ انھیںحریفانہ چشمکوںکے ذریعہ قاری کے ذہن کو عصری سچائیوں کی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن ان کے شعروں کی طنزیہ لطافتوں کا شور قاری کے شعور کی سنجیدہ سماعت پر اسقدر مسلط ہوجاتا ہے کہ قاری کا ذہن ان اشعار کے معنوی پہلو ؤں کی طرف منعطف نہیں ہو پاتا ۔لہذا یہ اشعار سماعت کے دائرہ تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔اس کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنا سارا زورواعظ، عابد، زاہد ،ناصح، اور محتسب سے معرکہ آرائیوں میں صرف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن بعض اشعار ایسے بھی ہیں جو قاری کو سرسری طور پر گزرنے نہیں دیتے ان کی انجذابی کیفیت قاری کے ذہن کو غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔
کیف و سرور جو بھی بن بے حد وبے حساب بن
نشہ نہ بن شراب بن نغمہ نہ بن رباب بن
مست خیال تابہ کے مست شراب ناب بن
زاہد خود فریب آ ذرہ سے آفتاب بن
مذکورہ اشعار میں ’’کیف‘‘،’’سرور‘‘،’’نشہ‘‘ ،’’شراب‘‘،’’زاہدخود فریب‘‘،’’ذرہ‘‘،’’آفتاب‘‘ان اشعار کی یہ اہم لفظیات ہیں جنھیں کچھ خاص تراکیب کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں ۔جس کے باہمی ارتباط سے تخلیق کا عمل انجام پذیر ہو رہا ہے۔پہلے شعر کے پہلے مصرعہ میں عمل کی اختیاری صورت پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن اس میں انضباط عمل کی تائید ’’بے حد‘‘ و’’بے حساب ‘‘کی تاکید تفریط کی شرط کے ساتھ دی جارہی ہے۔لیکن اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں معنوی کیفیت کا عمل پہلے مصرعہ سے برعکس ہوگیا ہے ۔اس لئے کہ ’’ شراب‘‘ کا جوہرحقیقت ’’نشہ‘‘ ہے اور ’’رباب‘‘ کا جوہر حقیقت’’ نغمہ‘‘ہے اگر ان لفظوں سے اس کے معنوی حقیقت کو سلب کر لیا جائے تو اس کا وجود متاثر ہو جائے گا ۔ایسی صورت میں خمار اپنے قاری کو ایک ایسے عمل کی ترغیب دے رہے ہیں جو اپنے مال حقیقت سے عدم تجانس کا مقتضی ہے اور یہ غیر منطقی عمل ہے۔اس کے برخلاف دوسرے شعر کے پہلے مصرعہ میں ’’مست خیال‘‘اور’’مست شراب ناب‘‘کی ترکیب کے ذریعہ ایک غیر مجہول حقیقت کا تعارف ایک مجہول حقیقت کے ذریعہ پیش کر رہے ہیں۔اور اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں’’زاہدخود فریب‘‘ ایک غیر محرک عمل کا استعارہ ہے جس کے ذریعہ قاری کو خود فریبی کے عمل سے نکال کر خودشناسی کی دعوت دیتا ہے ۔اور ذرہ کو آفتاب بنانے کی دعوت اصل میں انسان کے اندرون ذات میں پوشیدہ اسرار کے ادراک کا اعلامیہ ہے۔
کفر واسلام ہم آغوش ہیں میخانے میں
کعبہ شیشے میں ہے بت خانہ ہے پیمانے میں
اس شعر میں ’’کفر واسلام‘‘۔’’کعبہ ‘‘ و ’’بت خانہ‘‘ دو الگ الگ نظریات پر دلالت کرتے ہیں اور معنوی طور پر دونوں ایک دوسرے کی نقیض بھی ہیں ۔لیکن یہاں پران تراکیب کا استعمال استعاراتی معنی کے طورپر کیا گیا ہے۔جس کے ذریعہ ملائیت اور برہمنیت جو Captalismاورwelthnation کی جنم داتا ہے۔ اس کی نفی کی گئی ہے اس لئے کہ اسی سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت نے انسانی سما ج کو طبقاتی نظام میں منقسم کر دیا ہے اوراسی نے مذہبی اور روحانی مراکز کو بھی اپنی زرد میں لے لیا ہے جو کبھی انسانیت کے لئے اتحاد و قومی یکجہتی کی مثال تھے اورجہاں سے اتحاد و ہمدردی اور انسانیت کا پیغام دیا جاتا تھا اب وہاں سے افتراق و انتشار کی دعوت دینے کا کام کیا جاتا ہے۔
طواف کعبہ برحق ،بندگی برحق مگر واعظ
بغیر مئے پرستی آدمی انساں نہیں ہوتا
یہ شعر عرفانی مبادیات سے تعلق رکھتا ہے ،اور اس شعر میں اسلامی عبادات کے کچھ مقدس تلازمات کا استعمال بڑی شعوری ہنرمندی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔جس کے پہلے مصرعہ میں اسلامی وجوبات کے اثبات اور اس کی ادائیگی کے جواز پر ہی اس کی نفی سے استدلال کیا ہے ۔وہ بھی ایک ایسی شرط کے ساتھ جسے مئے پرستی کہتے ہیں ۔اور اس شعر کا اساسی موضوع تذکیہ نفس ہے۔ جس کے بغیر عبادات کا تصور لایعنی ہے ۔اس لئے کہ آدمی سے انسان ہونے
تک کا ارتقائی سفر بغیر معرفت ذات کے ممکن نہیں ہے اور کسی کو اسوقت تک اپنی ذات کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اس کا دل مئے وحدت سے سرشار نہ ہو ۔اس کے برعکس خمارؔ کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جسے قاری گنگناے بغیر نہیں رہ سکتا۔مزیر کچھ اشعار اور ملاحظہ کریں۔
زندگی کی تلخیوں کو زہر سمجھوں یا شراب
آکہ تجھ بن مجھ سے اس کا فیصلہ ہوتا نہیں
سوئے کعبہ کبھی جا نکلے کبھی جانب دیر
آج پہونچے ہیں بھٹکتے ہوئے میخانے میں
واعظ سلام لے کے چلا میکدہ کو میں
فردوس گمشدہ کا پتہ یاد آگیا
جام بہ دست و مے بہ جام یوں ہی گزار صبح و شام
زیست کی تلخی مدام پی کے پلا کے بھول جا
خمارؔ کے ایسے بیشتر اشعار ہیں جس کا صوتی آہنگ میں بڑی جذابیت پائی جاتی ہے ۔لیکن ان اشعار کی معنوی سطح اتنی مرتفع نہیں ہے کہ ان کی تفسیر و تفہیم کے لئے کوئی توضیحی اقدام کیا جائے۔ہر چند کہ خمارؔ کی خمریاتی شاعری میں وہ عمیق عرفانیاتی ابعاد و جہات نہیں پائے جاتے کہ جس کے لئے تعقلانہ پیش بندی اور ذہنی ریاضت کی مزید کوشش کی جائے ۔لیکن اس بات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ خمارؔ کے خمکدے کے بادہ نوشوںکے لئے مستی و سرشاری کی وافر مقدار ضرور موجود ہے جو ان کی خمریاتی کیفیت کو طرب انگیز کرتی رہے گی۔