احمد سہیل امریکہ
اردو کے ممتاز ادیب، افسانہ نگار، لکھنوی تہذیب کے ان نمائیندے اور محقق نیئر مسعود کا انتقال 24 جولائی 2017 کو ساڑھے بارہ بجے دوپہر لکھنو میں ہوا۔ ان کی عمر اکیاسی /81/ سال تھی۔ تدفین دیر رات منشی فضل حسین کی کربلا وکٹوریہ گنج میں ہوگی.
نیر مسعود لکھنو میں 1936 میں پیدا ہوئے۔ اردو کے نامور محقق سید مسعود حسن رضوی ‘ادیب’ ان کے والد تھے۔ان کی والدہ کا نام حسن جہاں رضوی تھا ،نیر مسعود کا خانوادہ علمی طور پر ایک انتہائی معروف خاندان ہے, ان کی ادبی زندگی کا آغاز لڑکپن ہی سے ہو گیا تھاجب انہوں نے محض 11/12سال کی عمر میں ایک ڈرامہ لکھا جسے انہوں نے علی عباس حسینی ،مولوی اختر علی تلہری اور مرزا محمد اصغر کی موجودگی میں بلا جھجھک پڑھا اور دادتحسین وصول کی لیکن تصنیف و تالیف کا سلسلہ با ضابطہ 1965میں شروع کیا،نیر مسعود رضوی نے ابتدائی تعلیم گردھاری انٹر کالج سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا،1957میں فارسی میں ایم اے کیا،بعد ازاں الہ آباد یونیورسٹی سے اردو میں ۔رجب علی بیگ سرور پر اور لکھنؤ یونیورسٹی سے فارسی کے مشہور شاعر ۔ملا محمد صوفی مازندرانی ۔پر فارسی میں ڈاکٹریٹ کی سند لی۔ ،1966میں لکھنؤ یونورسٹی میں کے شعبہ فارسی میں بحیثیت لیکچرار ان کا تقرر ہوا اور1996 میں وہ اسی شعبے سے بحیثیت صدر سبکدوش ہوئے،30ستمبر1971میں ان کی شادی صبیحہ خاتون رضوی سے ہوئی ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں دردانہ ،صائمہ ،ثمرہ اور ایک بیٹا تمثال ہے ، تمثال اس وقت امریکہ کی ایک نمائندہ یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں ،ان کے چھوٹے بھائی اظہر مسعود ایک معروف ترین مزاح نگا ر ہیں ،نیر مسعود تحقیقی مطالعات کے ساتھ ساتھ تراجم میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ،وہ ماہر داستان گو بھی تھے لیکن ان کی شہرت کا اصل سبب ان کے افسانے تھے جن میں طلسم ،زندگی کی پراسراریت شامل ہوتی،طلسم اور پر اسراریت سے معمور اس جہاں دیگر میں ہم اسی لئے سرگرداں ہوتے ہیں کیونکہ یہ دنیا تخیل کی بلندی کا احساس پیدا کرتی ہے،نیر مسعود ہمیشہ سلیس اردو اور دل موہ لینے والی زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف میں گم ہوئی تہذیب کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ،انتہائی اعلیٰ پائے کے علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ تخلیق کی دنیا میں پروفیسر نیر مسعود کو منفرد اسلوب میں لکھے ہوئے افسانوں کی بدولت غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ان کا اسلوب ہی ان کی بڑی پہچان تھااور وہ اسی اسلوب کے لئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے،انہوں نے بہت دیر سے (1971)میں افسانے کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنے پہلے ہی افسانے سے وہ آناً فاناًمشہور ہو گئے،پروفیسر نیر مسعود کے غیر معمولی علمی و ادبی کارناموں کی پوری ادبی دنیا میں شہرت تھی اور ان کارناموں کی وجہ سے انہیں ہر جگہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،انہوں نے اپنی ادبی اور تصنیفی زندگی میں 30سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور ہندو پاک کے باوقار ادبی رسالوں میں مختلف موضوعات پر ان کے300سے زائدعلمی اورتحقیقی مقالات شائع ہوئے پیشہ ورانہ طور پر نیر مسعود لکھنؤ یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر رہے۔ ان کی خدمات پر سنہ 1979ء میں انہیں سروتی اور سائیتہ اکادمی کااعزاز برائے تعلیم و ادب سے نوازا گیا۔
نیّر مسعود نہ صرف برصغیر میں فارسی کےچند اہم دانشورں میں سے ایک ہیں ۔ وہ خود بھی اس دور میں اردو کے جدید تر افسانہ نگار ہیں۔ اور اعلٰی درجے کے مترجم بھی ہیں۔ نیر مسعود کے افسانوں میں وجودی طلسماتی حقیقت نگاری اور تہذیبی اثرات بھی محسوس ہوتے ہیں۔ نیر مسعود کافکا، کامیو ، تھامس پنچن ،ایڈ گر ایلن پو، خورخے بوہس برانٹی اور دوستوفیسکی سے متاثر تھے ۔ ان کی افسانوی آفاق ،کمال اور جمال پر کراچی کے انگریزی اخربار " ڈان" کی 17 فروری 2013 کی اشاعت میں محمد عمر میمن نے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون کا یہ اقتباس ملاخطہ کریں:
But as stories, Masud’s work falls squarely within the limits of the created world. And it is here that the suspension of the defining temporal conventions creates the dizzying sensation of disjuncture. At the same time, it jars the reader into the recognition that behind the apparent multiplicity of his work lies a single concern: the experience of being. Therefore no limits or order producing perimeters are possible. Each story is a variation on a single theme. Just as the present is an imaginary point along a continuum where consciousness may choose to place it, a story is a discrete embodiment only insofar as consciousness chooses to see it as such. In essence, it has no beginning and, therefore, no end۔ ۔۔۔۔۔۔۔،محمد عمر میمن نے 1996میں ان کی دس کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا جن میں مشہور ان کے افسانوں کے انگریزی تراجم (The Snake Cacther) اور(Essence of Comphor) کے نام سے شامل ہیں،انگریزی کے علاوہ ان کے افسانے فرانسیسی،ہندی ،فینسین اور ہسپانوی زبانوں میں بھی کئے گئے ، کتنی قابل فخر بات ہے کہ ان کے افسانے کئی مغربی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں ،وہ گذشتہ دہائی میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے افسانہ نگار اور انہیں اپنے وقت کا بہترین مختصر کہانی کار مانا جاتا تھا، نیر مسعود نے جرمن ناول نگار ۔فرانز کافکا کی مشہور زمانہ تصنیف اور کافکا کی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ سلیس زبان، انتہائی عمدگی اور مہارت سے کیا،
میریات، غالبیات، لکھنویات، اردو مرثیہ، شخصیات اور تحقیق و تنقید کے تعلق سے پروفیسر نیّر مسعودکی تحریروں سے آج بھی ہمیں علمی روشنی ملتی رہی جناب نیر مسعود صاحب نے اپنے طویل مضمون ’زعفر جن‘ (بحوالہ ’منتخب مضامین‘ از نیر مسعود، آج کی کتابیں، کراچی ، ۲۰۰۹) میں ایک واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور مثالوں کے ذریعے اس کے ساتھ جڑی نہایت دلچسپ روایتِ مرثیہ کے خدوخال بیان کئے ہیں۔ انہوں نے میرانیس، مرزا دبیر اور میر مونس کے مرثیوں کا سرسری تذکرہ کرتے ہوئے میر حسین میرزا عشق کے مرثیے ’عروج اے مرے پروردگار دے مجھ کو‘ کو زعفر جن کے موضوع پر بہترین شاہکار قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق میرزا عشق کے مرثیے کی منفرد ترین خاصیت اس کے راویوں کا پیچیدہ نظام ہے۔مرثیے کی استخواں بندی کل آٹھ راویوں کی مدد سے ہوئی ہے، ۔ نیر مسعود کا مرثیے اور نوحہ اور نوحہ خوانی پرتفصیل سے لکھا جس میں تحقیقی مباحث اور تنقیدی دانش کا تاریخی اور حقیقت پسندانہ افق خلق ہوتا ہے۔ نیّر مسعود کا کہنا ہے ، ” سوزخوانی کے لئے موسیقی کی قدیم شکل دھرپد کا انتخاب کیا گیا حالانکہ اس وقت خیال کی گائیگی کا چلن عام ہوگیا تھا-دھرپد میں گلے بازی اور گٹکریوں کرنا منع ہوتا ہے-دھرپد میں لمبی تان لگانا بھی منع تھا لیکن سوزخوانی میں اس شرط کو ہٹادیا گیا-بعد ازاں سوز خوانی میں راگ ،راگنیوں کا استعمال کرکے بہترین دھنیں بنائی گئیں –بھیرو ،دیس ، جوگیا،درباری اور پوری راگ راگنیوں کا استعمال سوزخوانی میں عام ہوگیا-سوزخوانی میں فن اجتہاد اسقدر ترقی کرگیا کہ جو راگ خوشی کا تاثر پیدا کرتے تھے ان میں بھی ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ سوزوگداز پیدا ہوگیا " ۔۔۔۔۔۔ نیر مسعود نے بابا مقدم کی فارسی کہانی "باران و اشک" کا بہتریں ترجمہ کیا ہے جو میرے چند پسندیدہ تراجم میں سے ایک ہے۔ اس کہانی میں تاثریت کا اظہار غصب کا ہے۔ اس کہانی کے یہ حصے ملا خطہ کیجیے:
’’میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میںدور سے اُسے پکارتا‘ تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں قید ہوا‘ تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری ہو رہی ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ اس کا کیا حشر ہو گا۔
’’اور بھی ہزاروں فکریں تھیں۔ مثلاً یہ کہ خود میرا کیا بنے گا؟ ہمیں یہیں قید رکھا جائے گا یا سائبیریا یا کسی اور علاقے میں بھجوانا ہے؟ جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھیں‘ مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مجھے کہا گیا‘ میں نے تو لڑائی میں توپیں استعمال کی تھیں اور اپنا سارا گولابارود دشمنوں پر جھونک دیا‘ اس لیے میرا انجام بہت برا ہوناہے۔ لیکن کسی کو ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں پتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہمارا معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہو جائوں اور جا کر کاسی کو دیکھوں‘ اس کی گردن تھپتھپائوں‘ اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں۔ یہ سارے خیالات دن ہی دن میں رہتے‘ مگر راتیں! ۔۔۔۔۔"بارش تیز برسنے لگی اور تاریکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا:
’’تمہارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو؟‘‘
’’اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا…‘‘ میں نے کہا… ’’پانی برس رہا ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کہانی کو پڑھ کر فارسی افسانے میں فکری اور معاشرتی اور اعصابی کربوں اور تناو کے اظہار کو جس منفرد تخلیقی اور جمالیاتی بیانیے کا حصہ بنایا ہے۔ وہ فارسی فکشن میں کم ہی ملتا ہے ۔ یوں لگتا ہے ہم انسان بھی ان گھوڑوں کی مانند تقدیر کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس ہیں۔ زندگی میں سکون ، فراغت اور خوشحالی کا ایک دور ضرور آتا ہے لیکن مقدر میں نہ ہو تو یہ زمانہ مستقل نہیں رہتا۔ اور ہمیں مشیت ایزدی کے مطابق سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اس کہانی کا حاصل مطالعہ ’بوڑھے آنسو نہیں بہاتے‘ ایک ایسی کرب انگیز کیفیت ہے جو صرف محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں پر مبشر علی زیدی کے ساتھ نیر مسعود کی ٹیلی فون پر کی گئی گفتگو جو دلچسپ ہی نہیں بلکہ ادیب کے وجودی کرب ، اپنے فنا کی خواہش اور تناو کو بھی اجاگر کرتی ہے:
"کل شام لکھنؤ سے نیّر مسعود کا فون آیا،
’’مبشر! میرا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘
میں نے گھبرا کے پوچھا،
’’کب پروفیسر صاحب؟‘‘
آواز گونجی،
’’ابھی، تھوڑی دیر پہلے۔‘‘
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
لڑکپن میں ان کا افسانہ طاؤس چمن کی مینا پڑھا تھا۔
’’مبشر! کیا لوگ مجھے یاد رکھیں گے؟‘‘
انھوں نے عجیب سوال کیا۔
میں نے چند لمحے سوچ کر دریافت کیا،
’’کیا آپ کبھی وزیر بنے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کوئی ٹی ٹوینٹی میچ کھیلا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کسی فلم میں کام کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
میں نے ٹھنڈی آہ بھری،
’’پروفیسر صاحب، آپ کو ایک آدھ گانا ضرور گانا چاہئے تھا۔‘‘ ۔۔۔۔
**نیر مسعود کی کتابوں کے عنوانات یہ ہیں۔: **
افسانوں کے مجموعے:
عطرِ کافور؛ سیمیا؛ طائوس چمن کی مینا؛ گنجفہ ۔
سوانح:
انیس، سوانح؛ یگانہ، احوال اور آثار؛ شفاٴالدولہ کی سرگزشت؛ دولھا صاحب عروج؛ ادبستان، شخصی خاکے۔
نیر مسعود کی چند کتابوں کے عنوانات یہ ہیں۔:
ادبی تحقیق:
رجب علی بیگ سرور، حیات و کارنامے؛ تعبیرِ غالب؛ مرثیہ خوانی کا فن؛ منتخب مضامین
مرتّبہ کتابیں:
سخنِ اشرف، دیوان واجد علی شاہ اختر؛ انتخاب بستانِ حکمت؛ بزم انیس (منتخب مراثی)
بچوں سے باتیں مرتب
بستانِ حکمت ترجمہ
سوتا جاگتا
ایرانی کہانیاں۔